حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سب سے زیادہ اہم شعبہ ’’تعلیمات‘‘ ہے جو اس ادارہ کا روح رواں اور اس کی تمام تعلیمی مہمات ایک مجلس علمی انجام دیتی ہے۔ اس مجلس علمی کے صدر نشین حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند تھے۔ صد ہزار افسوس کہ اس مجاہد جلیل اور جامع علم و عمل نے آج تین ماہ قبل ہمیں داغِ مفارقت دیدیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ان کی ذاتِ گرامی اس اجتماع مسرت میں رونق افروز ہوتی تو رنگِ مجلس کچھ اور ہوتا۔ رزقنا اللہ تعالیٰ امثالھم۔ اس مرکز کا سالانہ میزانیہ چھ لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور عمارات دارالعلوم کا مجموعی اندازہ ایک کروڑ روپیہ افغانی ہے۔ اس کے اساتذہ کی تعداد چالیس ہے جو اپنے مختلف مراتب علمی کے لحاظ سے صف اوّل کے علماء شمار کئے جاتے ہیں اور ہر تعلیمی سال میں ڈیڑھ ہزار کے قریب طلباء اکتساب علم کرتے ہیں جن میں سے ہر سال ڈیڑھ سو سے دو سو تک تکمیل علوم کرکے سند فضیلت حاصل کرتے ہیں ، نیز ہند وبیرون ہند میں اس مرکز کی علمی شاخیں ہزاروں سے متجاوز ہیں اور جس طرح اس کے فضلاء علمی اور دینی خدمات انجام دیتے ہیں ، اسی طرح سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں بھی پیچھے نہیں ہیں اور میں اس حقیقت کے اظہار میں یقینا حق بجانب ہوں کہ اسی جماعت نے ہندوستان میں سب سے پہلے علم آزادی بلند کیا اور ہندوستان کی دوسری اقوام کے دوش بدوش راہ آزادی میں بے مثال قربانیاں پیش کیں اور ان کا دائرہ خدمت نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام عالم اسلامی کو محیط ہے۔ حق تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ یہ مرکز عرفانی اپنی ہمہ گیر خدمات کے طفیل آج اس پر سر افتخار بلند کئے ہوئے ہے کہ اعلیٰ حضرت ہمایونی اپنی خاندانی غرباء نوازی اور قدیم تعلقات کا پاس فرماتے ہوئے اس مرکز کے خدام اور اساتذہ اور طلباء کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے نواز رہے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت ہمایونی کا قدوم میمنت لزوم اس ادارہ کے لئے ایک تاریخی عزت ہے اور حقیقتاً سلاطین پاک نہاد کی پشت پناہی سے ہی علم سربلندیوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اگر ہم اس ’’نعم الامیر علیٰ باب الفقیر‘‘ کی علمی تشریح کو علم پروری اور عرفان پناہی سے تعبیر کریں جو معززین خاندان شاہی کے اکابر دارالعلوم دیوبند کے ساتھ اخلاص مندانہ تعلق پر ایک تاریخی دلیل ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا جس پر ہم حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے بارگاہِ خسروی میں ہدیہ تشکر و امتنان پیش کرتے ہیں ۔ ’’ اے آمد نت باعث آبادیٔ ما‘‘ اعلیٰ حضرت معظم! ذات ملوکانۂ ہمایونی کی توجہات تاریخی تعلقات اور اعلیٰ حضرت کی نیات صالحہ کے پیش نظر ہم صرف یہی آرزو رکھتے ہیں کہ مملکت خداداد افغانستان سربلند اور اعلاء کلمۂ اسلام کے لئے توفیق یاب ہو۔