حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
زمانۂ طالب علمی میں ’’کوثر العلوم‘‘ کے نام سے آپ نے یہ ایک نظم لکھی تھی، جس کے چند اشعار یہ ہیں : یہ کیسی دھوم ہے باغِ جہاں میں آج اے ہمدم گلوں سے بلبل نالاں گلے ملتی ہے کیوں پیہم خوشی میں کیوں ترانے گارہی ہیں قمریاں باہم برستا ہے یہاں پر ابر رحمت آج کیوں چھم چھم ہوئے جاتے ہیں گل جامے سے باہر شادمانی سے ہوئی جاتی ہے بلبل مست اپنی نغمہ خوانی سے خرام ناز سے باد بہاری آج آتی ہے بنا کرہار پھولوں کا چمن میں ساتھ لاتی ہے چمن میں ہر طرف سے یہ مبارکباد آتی ہے مبارک ہو بہار بے خزاں گلشن میں آتی ہے پلا دے ایک ساغر ساقی رنگیں بیاں مجھ کو تیری آنکھوں کے صدقے دے شراب ارغواں مجھ کو بتا دے عالم اسرار کے راز پنہاں مجھ کو پلا دے وہ مئے عرفاں کہ کردے بے نشاں مجھ کو مضامیں کا چلاہے دل سے اک قلزم رواں ہو کر میرے عجز بیاں نے سر اٹھایا آسماں ہو کر تخیل کے ہے سینے میں مضامین کی فراوانی تصور کے خزانے میں ہے تصدیقوں کی ارزانی دیگر نظموں کے عنوانات یہ ہیں : بارگاہِ نبوت میں فریاد، فکر حزیں ، آہ درد منداں ، استقبالِ مجاہد، یادِ رفتگاں ، ہیئت و ہیبت، موعظت و ذکریٰ وغیرہ ’’شکریہ نظامِ دکن ‘‘کے عنوان سے نظام دکن کے نام درج ذیل القاب کے ساتھ ایک نظم تحریر فرما کر نظام دکن کے نام بھیجی گئی تھی، جس میں عیدین کے موقع پر طلبۂ دارالعلوم کے لئے نظام دکن کے ارسال کردہ وظیفہ مبلغ پانچ سو روپئے کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ شکریہ بندگانِ عالی متعالی اعلیٰ حضرت نظام دکن خلد اللّٰہ سلطانہٗ و ابقیٰ اجلالہٗ و قتیکہ پنج صد روپیہ سالانہ بتقریب عیدالفطر و عید الاضحی برائے طلبۂ دارالعلوم دیوبند از بارگاہِ رفیعش بتقرر آمد متع اللہ الاسلام والمسلمین بطول بقائہٖ وحیاتہٖ اے سرور محفل عالم عجب ہے تیری تاب کا بحر شادی میں ہے پیدا جزر و مد کا انقلاب جلوہ پیدا ہے ہر ایک ذرہ مثال آفتاب مدعی ہے آسماں کی یہ زمیں خاک یاب دل کا غوغا ہے کہ لا ساقی مئے ناب سخن ساغر و مینا ہے خالی اور پیاسی انجمن رخصت اے ذوق خموشی چھوڑ دے اپنا سماں دیکھنے دے اب تکلم کی بھی مجھ کو شوخیاں آسماں آسا ابھرتا ہے مرا عجز بیاں صورت سے ہوں سراپا اپنی بہجت کا نشاں شعلۂ سوز الم سے آج میں کوسوں ہوں دور چھیڑ مت مجھ کو کہ میں ہوں مفت صہبائے سرور