حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خیال، منطقیانہ استدلال اور لِمّی انداز غالب ہے۔ لسان العصر سید اکبر الٰہ آبادیؒ نے ایک انگریزی نظم کا اردو میں منظوم ترجمہ ’’پانی کی روانی‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ حکیم الاسلامؒ نے اس طرز پر ’’روانی اسلام‘‘ کے نام سے ذیل کی نظم کہی جو رسالہ ’’القاسم‘‘ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ چلا ارض بطحا سے ایک بحرِ ذاخر کہ تھا جس کی موجوں کا اول نہ آخر وہ توحید کی لے بجاتا ہوا سرود حجازی میں گاتا ہوا وہ جنگل میں منگل مناتا ہوا وہ شہروں میں شادی رچاتا ہوا پہاڑوں پہ نعرے لگاتا ہوا سمندر میں طوفاں اٹھاتا ہوا ضلالت کے پیڑوں کو ڈھاتا ہوا زمانے میں اُدھم مچاتا ہوا صداقت کے جھنڈے اڑاتا ہوا وہ باطل کو نیچا دکھاتا ہوا بتوں سے وہ رشتے تڑاتا ہوا حضور اس کے سب کو جھکاتا ہوا جہالت کی رسمیں مٹاتا ہوا معارف کے ایوان اٹھاتا ہوا اذانیں زمیں پر دلاتا ہوا شیاطین کو دھکے لگاتا ہوا معاصی کو آنکھیں دکھاتا ہوا گناہوں کی گرن دباتا ہوا وہ غیروں کو اپنا بناتا ہوا لگن اک نئی سی لگاتا ہوا وہ آنکھوں سے آنکھیں لڑاتا ہوا دلوں میں ہر اک کے سماتا ہوا تمدن کی بیخیں جماتا ہوا مہذب جہاں کو بناتا ہوا دلوں کو وہ ہمت دلاتا ہوا وہ روحوں کی قوت بڑھاتا ہوا دروس حقائق پڑھاتا ہوا خرافات یوناں بھلاتا ہوا صدفہائے علمی بہاتا ہوا گہرہائے عرفاں لٹاتا ہوا (۱۱۰) اکبر الٰہ آبادیؒ کی نظروں سے یہ نظم گزری تو بہت خوش ہوئے اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کو خط لکھا تھا ’’مولانا محمد طیب صاحب کی نظم روانی اسلام‘‘نظروں سے گزری، ماشاء اللہ صل علیٰ، جزاک اللہ نقاش نقش ثانی بہتر کشد از اول‘‘۔