حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
میں آسکتی ہو۔ شاعری میں غالبؔ، مومنؔ، ذوقؔ اور اقبالؔ کے یہاں اشعار بکثرت ملتے ہیں جن میں جہان معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ آل احمد سرور کے خیال میں ’’ایسے شعراء کی نظر صحیح معنی میں نادرہ کار، تازہ کار اور لالہ کار ہوتی ہے۔ ان کی نظر مانوس احساسات میں ، نئے جلوے اور نامانوس کیفیات میں مانوس بو باس پیدا کرتی ہے۔ وہ لفظ کو نشتر یا تلوار یاموج ہائے رنگ سے شفق بنادیتے ہیں ۔ لفظ میں طلمسی دنیا کو اس طرح سمو دیتے ہیں کہ وہ کائنات بن جاتا ہے، یہی شاعر اگر نثر میں اظہار خیال کرے تو اس میں بہائو تو ہوتا ہے مگر شاعری جیسا تموّج نہیں ہوتا، خاموش روانی تو ضرور ہوتی ہے مگر اتار چڑھائو، شاعری کی بہ نسبت ذرا کم ہوتا ہے۔ وہ شاعری میں صرف نظر سے سروکار رکھتا ہے، جب کہ نثر میں نظریہ سے، شاعری میں اس کا احساس اُبھرا ہوا ہوتا ہے اور نثر میں ذرا دبا ہوا۔‘‘(۱۰۹) شاعری ایک شعوری غریزہ ،ایک قلبی احساس اور تخیلاتی ملکہ کا نام ہے،جس میں نشاط و مسرت، حزن و الم، یاس و قنوطیت کی ملی جلی واردات کار فرما ہوتی ہیں ، فی نفسہ شاعری کوئی بری چیز نہیں ، بشرطیکہ ہیئت اور مواد کو یکساں اہمیت دی جائے اور ایک تعمیری فکرو فلسفہ کی اس میں آبیاری ہو، ابتذال، ہزل، بے مصرفی اور فحش بیانی سے اس کا دامن داغ دار نہ ہو۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒکی شاعری کے فنی اعتبار اور وزن و وقار پر گفتگو کرنا ہمارا منصب نہیں ہے، ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انہیں شعر و شاعری کا پاکیزہ ذوق عطا فرمایا تھا جس سے انہوں نے اپنی عالمانہ و بزرگانہ شان کے مطابق ہر جگہ دینی خدمت، دین کی اشاعت اور دین کی ترجمانی، تحریر و خطابت اور تصنیف و تالیف کی طرح ایک کار آمد ہتھیار کا کام لیا ہے اور جس لفظ کو انہوں نے استعمال کرلیا وہ گنجینۂ معنی بن گیا گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے آپ نے طالب علمی کے زمانہ میں بڑی پختہ اور معیاری نظمیں کہی ہیں اور ان نظموں میں اپنا تخلص ’عارفؔ‘ اختیار کیا ہے، کہیں کہیں بغیر تخلص کے بھی آپ کی نظمیں ملتی ہیں ۔ اردو، عربی، فارسی، تینوں میں شعر گوئی پر قادر تھے، مگر شاعری کا بڑا حصہ اردو میں ہے۔ مجموعی طور پر آپ کی سینتالیس نظمیں ملتی ہیں ، جن میں سب سے طویل نظم آنکھ کی کہانی ہے۔ اس میں تقریباً ۷۱۶؍اشعار ہیں ، آپ کی نظمیں حسن تعبیر، ندرتِ خیال اور ترجمانیٔ جذبات کا خوبصورت نمونہ ہیں ۔ نظموں میں مذہب، اخلاق، نصائح، مزاح، لطافت، فلسفیانہ