حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
آں گاہ ایں حروف راز بان مبا رک خود تلقین کر د۔ اس وقت حضرت نے خود اپنی زبان مبارک سے بچہ کو یہ حروف کہلوائے۔(۳) اس سے معلو م ہو ا کہ مکتبی زندگی کا آغاز اکابر وقت کے ذریعہ ہو نا کو ئی بدعت یا امر محدث نہیں ہے،بلکہ تعلیم وتعلم کی دنیا کا ایک ایسا پا کیزہ معمول ہے کہ جس کی بر کتوں کی شہا دت قرنوں اور صد یوں نے دی ہے ،اسی معمول کے مطابق حکیم الاسلا م کی مکتبی زندگی کا آغاز ہوا ۔ اسلا می علوم وفنون کی دنیا میں کسی سچے اور حقیقی طا لب علم کی طلب وجستجو کی کو ئی منزل آخری منزل نہیں ہو تی ، ہر منزل اپنی جگہ پر ایک نئی منزل کی تمہید ہو تی ہے، تاہم درسِ نظامی کی تکمیل کی جو میعا د شروع سے چلی آرہی ہے اسکو ایک انتظامی معاملہ کہا جا سکتا ہے، اس کی رو سے نصا ب تعلیمی کی تکمیل اسی میعا د میں ہو تی ہے تو آگے ذاتی مطالعہ سے بہت سے ان رخنو ں کو پو را کیا جاسکتا ہے بشر طیکہ طالب علم میں اکتسابِ تلقی کے بعد انتخاب کیساتھ، مطالعہ اس کے استحضا ر اور بر وقت اس کو کام میں لانے کے جو ہر مو جو د ہو ں ۔ اسلا ف کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ بیشتر نے نہ صرف یہ کہ نصاب تعلیم کو کم سے کم وقت کے اندر پو را کیا ہے بلکہ کم عمر ی میں ہی تکمیل کر دی، حکیم الا سلا مؒ بھی انہیں شخصیا ت میں ہیں آپ کو ۱۳۲۲ھ میں تعلیم و تربیت کے لیے مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کی آغوش میں دے دیا گیا، وقت کے اسا طین علم اور شیوخ کی موجودگی میں مکتب نشینی کی مبارک تقریب عمل میں آئی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒ، شیخ طریقت مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی ؒ، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب عثمانی ؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی ؒ اور آپؒ کے والد محترم حضرت مولانا محمد احمد صاحب قاسمیؒ جیسے اسا طین علم نے بسم اللہ شروع کرائی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی ؒنے اس مبارک مجلس کی تاریخ ذیل کے قطعہ سے نکالی۔ حبذا مکتبِ طیب کی مبارک تقریب کہ نئی طرح کا جلسہ تھا نئی طرح کی سیر ربِّ یسّر جو کہا اس نے تو بروئے ابا فضل تاریخ میں بول اٹھا کہ تمم باالخیر دو سال کی مدت میں آپ نے پورا قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے ساتھ قرأت و تجویدمیں مہارت تامہ حاصل کی۔ حفظِ قرآن شریف سے فراغت کے بعد درجۂ فارسی میں داخل کیے گئے اور وہاں سے پانچ سال میں پورا نصاب مکمل کرکے سندِ فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد شعبہ عربی میں داخلہ لے لیا چونکہ بچپن ہی سے خدا تعا لیٰ نے بے حد قوت حافظہ بطور خاص ودیعت فرمائی تھی، جس مقدس شخصیت کے ساتھ حضرتؒ کا