حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہوتا ہے۔ اس جگہ دِینُ اللّٰہ سے زراعت مراد ہے اور نصر اللہ سے مفید ہوا مراد ہے اور فتح سے مناسب بارش مراد ہے، اس لئے کہ اس میں خون ریزی ہو کر لوگوں کو کچھ جانی نقصان پہنچا ہے،جو خدا کی عام مدد کے خلاف ہے۔ فوج کی مدد سے جو ملک فتح ہوتا ہے اس کے متعلق خدا کافرمان ہے اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَا اَذِلَّۃً۔ الخ اور فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ استغفارکا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاشت کاری سے عدم واقفیت کا اظہار فرما دیاتھا۔ ذیل میں حضرت حکیم الاسلامؒ کا حکیمانہ جواب ملاحظہ ہو۔ محترمی، زید مجدکم سلام مسنون! گرامی نامہ پہنچا، بوجہ کثرت کار و ہجوم اسفار جواب میں تاخیر ہوئی، معذرت پیش کرتاہوں ۔ آپ نے سورۂ فتح کی جو کاشت کارانہ تفسیر فرمائی ہے اس کی سند اور ماخذ کیا ہے؟یعنی یہ تفسیر سلف میں سے کسی نے کی ہے یا محض آپ کا تخیل ہے؟ اگر کی ہے تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں اور اگر یہ بلا سند محض تخیل ہے تو اگر کوئی لوہار اس کی لوہارانہ تفسیر لکھے اور کہے کہ دین اللہ سے مراد فولاد سازی ہے اور نصر اللہ سے مراد لوہا بنانے کی بھٹی ہے اور دھونکنی ہے اور یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ سے مراد فولادی فیکٹریوں مزدور اور کاری گروں کا داخلہ ہے اور فتح سے مراد فیکٹری کے آہنی مال کی دنیا میں سپلائی ہے جس سے مالی فتوحات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور استغفار کا حکم لوہاروں اور آہنی فیکٹریوں کے کاریگروں کو ہے حضورؐ کو نہیں ، یا اسی طرح ایک نجّار اس سورت کی ایک نجّارانہ تفسیر لکھے کہ دین اللہ سے مراد لکڑی کی صنعت ہے اور نصر اللہ سے مراد آرا مشین اور نہانی و بسولہ ہے اور دخول افواج سے مراد فرنیچر کے کارخانوں میں کاریگروں کا داخلہ اور استغفار کا حکم حضورؐ کو نہیں بلکہ بڑھئیوں کو ہے تو کیا اپنے تخیل کے نقطۂ نظر سے اس کو قبول فرماویں گے؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اور اگر قبول فرماویں گے دراں حالے کہ آپ کے تفسیری کی نفی ہوگی تو آپ نے خود ہی اپنے تفسیر کی نفی کردی اور اسے رد کردیا۔ اب اگر اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس صورت حال کے ہوتے ہوئے اسے رد کردیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ اور جب یہ تفسیر اسی رد و نفی کے کنارہ پر ہے تو اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ایسی ردی چیز تفسیر نہیں ہوسکتی تحریف ہوگی تو اس میں کیا قباحت ہے؟ مقصد یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تفسیر کا معیار کیا ہے اور تفسیر کے معنی کیا ہیں جسے پیش نظر رکھ کر آپ کی اس تفسیر کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکے۔ والسلام محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند ۱؍۶؍۹۰ھ