حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بیشتر نے یہ داستان سنی تو درمیاں سے سنی اور جنہوں نے نہیں سنی وہ درمیاں اور انتہا دونوں سے بے خبر ؎ سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی نہ ابتداء کی خبر نہ انتہاء معلوم حکیم الاسلامؒ نے تقریباً ساٹھ سال تک اپنے جدامجد کے گلشنِ دین و دانش کی آبیاری کی، اس کی ترقی وتعمیر اور نیک نامی کے اسباب پیدا کئے، دارالعلوم کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آنے والے اگر اس کے مسلک ومزاج اور روایات کا تحفظ ہی کرلیں تو غنیمت ہے۔ اس حقیقت کا انکار کر ہی کون سکتا ہے کہ حکیم الاسلامؒ کے جدامجد حضرت نانوتویؒ دارالعلوم دیوبند کے ہی نہیں فکر دیوبندکے بھی بانی تھے اور حکیم الاسلامؒ کی پوری زندگی دارالعلوم دیوبند اور فکر دیوبند کی ترویج، تحفظ اور اکابر دیوبند کے تعارف و تذکروں میں گزری۔ دارالعلوم ان کی شخصیت کا جزوِ لازم اور ان کی شخصیت دارالعلوم کی مفاد و مصالح کے لئے وقف رہی۔ دیوبندی مکتبۂ فکر کو ان کے دور میں فرقِ ضالہ کی جن یورشوں کا سامنا تھا اور عقیدہ و فکر کے جو معرکے انہیں درپیش تھے وہ اب کہاں ؟ حکیم الاسلامؒ نے کانٹوں کے فرش پر چل کر آنے والوں کے لئے راہیں ہموار اور خوشگوار بنائیں ، اب چلنے والے پُرخار راہوں پرنہیں ، پھولوں کے سیج پر چلیں گے ؎ خار ہے از اثر گرمیٔ رفتار سوخت منت بر قدم رہ روا است مرا گویا اب صورت حال یوں ہوئی کہ بہارمیں تو زمیں سے بہار اگلتی ہے جو مرد ہے تو خزاں میں بہار پیدا کر اور سازگاریٔ ماحول کا تقاضہ اور نصیحت آموزی کا مطالبہ یہ ہوا کہ موسم اچھا، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان اونچی جس کی لہر نہیں ہے وہ کیسا دریا جس کی ہوا میں تند نہیں وہ کیسا طوفان اس روح فرسا واقعہ سے براہِ راست دوچار ہونے والی شخصیت کے حصہ میں عزیمت، صبر و ضبط، شرافت و کرامت اور عفو و درگزر کی ایک ایک سنت آئی اور ہر اذیت عنداللہ بلندیٔ درجات کا سبب بنی ہوگی۔ انشاء اللہ! اس قصہ کے تعلق سے جو کچھ اور جب کبھی زبان و قلم پر آسکتا ہے تو وہ کسی تأثر اور تأسف کے طورپر نہیں ، نوشتۂ تقدیر کی حکایت کے طور پر آسکتا ہے ؎ حافظ از بادِ خزاں در چمن مرنج فکرِ معقول بہ فرما گلِ بے خار کجا است مسلکی وحدت کی خاطر آخر میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم،