حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ان دونوں کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔ نبوت کا بھی ایک مزاج ہے اور بادشاہت و ملوکیت کا بھی۔ دنیامیں جب بادشاہت غالب آتی ہے تو اس کا مزاج کچھ اور ہے۔ ان دونوں مزاجوں کا قرآن کریم نے تذکرہ کیا۔ فرمایا کہ بادشاہ جب کسی ملک پر غالب آتے اور اقتدار پاتے ہیں اور فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو وہ کیاکرتے ہیں : ’’اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَا اَذِلَّۃً۔ وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ۔ جب کوئی بادشاہ کسی ملک میں فاتحانہ داخل ہوتا ہے تو وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے اس شہر کو اس طرح سے فاسد کرتا ہے کہ عزت والوں کو پست کرتا ہے، ذلت والوں کو اونچا کرتا ہے۔ انقلاب عظیم برپا کرتا ہے۔ اس لئے کہ جواب تک عزت والے تھے،ان سے عزت چھیننی ہے کیوں کہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ پھر برسراقتدار نہ آجائیں ، اس لئے انہیں کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے اقتدار کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ وہ نشانات مٹائے جاتے ہیں جو کسی قوم کے اقتدار کے ہوتے ہیں ۔ کاغذوں سے وہ نام محو کئے جاتے ہیں تاکہ خیال بھی ادھر نہ جائے، اس لئے کہ اگر ان کا اقتدار کسی درجہ میں بھی رہ گیا تو ہمارا اقتدار قائم نہیں ہوگا۔ وَ کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ۔ یہ سلاطین کا طریقہ ہے، بادشاہت اور ملوکیت کی تاریخ دیکھی جائے تو الٹی ہی نظر آئے گی۔ اور ایک انبیاء علیہم السلام کا مزاج ہے۔ جب نبوت کا اقتدار غالب ہوتا ہے تو وہ امن کا اعلان کرتے ہیں ، عزت والوں کو عزت کی داشت کرتے ہیں اور جو پست ہیں ان کو ابھارتے ہیں تاکہ سب عزت میں شریک ہوجائیں اور کسی کی تذلیل اور رسوائی نہ ہو۔ نبی کریم Bدس برس کی زندگی کے بعد جب مدینہ طیبہ سے تشریف لائے اور فاتحانہ مکہ کے اندر داخل ہوئے تو دس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر ساتھ تھا۔ آپؐ اونٹنی پر سوار ہیں ، بادشاہ ایسے موقع پر اقتدار کو جتلاتا ہوا اور اینٹھتا ہوا داخل ہوتا ہے لیکن حضور B داخل ہوئے۔ حدیث میں ہے کہ تواضع اور خاکساری کی وجہ سے گردن مبارک اونٹنی کی گردن پر جھکی ہوئی تھی، چوں کہ عزت کے ساتھ داخلہ ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عزت پیش نظر تھی، اس لئے غایتِ تواضع اور انکساری کی وجہ سے سرمبارک اتنا جھک گیا تھا کہ اونٹنی کے سر سے آملا تھا۔ ع نہد شاخ پر زمیوہ سربرزمین