حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
شکار کرنے کی کوشش کرتاہے تو ناک ذریعہ بنتی ہے بہت سی چیزوں سے بچنے کا اور بہت سی چیزوں کے حاصل کرنے کا، اسی طرح سے ذائقہ بعضی چیزوں کو چکھ کر آدمی محسوس کرتا ہے کہ یہ مضر ہوں گی، اس کا ذائقہ بتلا رہا ہے کہ یہ مضر ہے، بعض جو فرحت بخشتے ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(۵۸) اس دنیاکے حالات اور اس کی اشیاء پر جہاں تک ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز یہاں مرکب ہے۔ ایک حصہ اس میں نمایاں ہے جس کو آپ جسم یا صورت کہہ دیں اور ایک حصہ مخفی ہے جس کو آپ روح یا جان کہہ دیں ۔ غرض یہاں کی ہر چیز روح اور جسم سے مرکب ہے۔ اس جہان میں نہ جسم محض ہے نہ روح محض ہے جسم محض ہو تو اس کا انجام گلنا پھولنا، پھٹنا سڑنا ہے۔ وہ بغیر روح کے باقی نہیں رہ سکتا اور روحِ بلا جسم کے نمایاں نہیں ہوسکتی، وہ مخفی کی مخفی رہ جائے گی۔ اسی لئے دنیا میں جب بھی کوئی چیز آئے گی تو وہ اپنا کوئی پیکر یا ہیئت لے کر آئے گی۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ جب بھی کوئی غیبی حقیقت ظاہر ہوگی وہ کوئی نہ کوئی پیکر یا پیراہن ضرور اختیار کرے گی اور وہ پیراہن اسی کے مناسب حال ہوگاجو اللہ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے۔ مثلاً گلاب کی خوشبو ایک غیبی حقیقت ہے، وہ جب نمایاں ہوگی یہ نہیں ہے کہ وہ کیکر کے پتوں میں نمایاں ہوجائے، اپنے ہی مناسب صورت اختیار کرے گی۔ خربوزہ ہے اس کا ایک ذائقہ ہے، جب بھی اسے آپ تلاش کریں گے تو خربوزے کی ہیئت میں تلاش کریں گے، یہ نہیں کہ آپ آم کی ہیئت میں خربوزہ کا مزا ڈھونڈنے لگیں ۔ اس لئے اس ذائقہ کو اللہ تعالیٰ نے اسی کے مناسب شکل دی ہے۔ وہ غیر شکل میں نمایاں نہیں ہوسکتا۔ انسان کو حق تعالیٰ شانہٗ نے حقیقت جامہ بنایا ہے جس میں ساری ظاہری اور باطنی کمالات رکھے ہیں ۔ اس کے مناسب حال یہی صورت ہے جو آپ کی صورت نوعیہ ہے۔ یہ حقیقت کسی جانور کی شکل میں ظاہر ہو نہیں ہوسکتی۔ اسی انسانی پیکر میں ظاہر ہوگی تو ہر حقیقت قدرۃً چاہتی ہے کہ میرے مناسب صورت ہو۔ ہر صورت چاہتی ہے کہ میرے مناسب اس میں حقیقت ڈالی جائے۔اللہ کے یہاں کوئی بے جوڑ قصہ نہیں ہے کہ حقیقت کوئی سی ہو اور شکل کوئی سی ہو، ہر صورت کے مناسب حقیقت اور ہر حقیقت کے مناسب صورت ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ:التمسوا الخیر فی حسان الوجوہ۔ خوبصورت چہروں میں خیر تلاش کرو۔ یعنی اگر چہرہ مہرہ اچھا ہے تو اندر بھی خیر ہی ہوگی، چہرہ مہرہ خراب ہے تو اس خیر کے درجے کی نہیں ہوگی۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ قادرِ مطلق ہیں ۔ وہ پابند نہیں ہیں ، وہ چاہیں تو بہتر سے بہتر صورت میں بری حقیقت ڈال دیں اور بری سے بری صورت میں