حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اس کی عبارت پڑھ کرسنا رہے ہیں ۔ حقائق و واقعات کی ایسی منظر کشی فرماتے تھے گویا واقعہ متمثل ہوکر سامعین کے سامنے کھڑا ہے۔ شریعت کے اسرار و حکم اور طریقت و حقیقت کے رموز و لطائف اس طرح بیان فرماتے تھے گویا دریائے علم و معرفت کا طوفان امڈ آیا ہے۔ حضرت مرحوم نے اپنے ساٹھ پینسٹھ سالہ علمی دور میں خدا جانے ہزاروں مرتبہ خطاب فرمائے ہوں گے اور بعض اوقات ایک ایک دن میں کئی کئی مرتبہ انہیں تقریر و خطابت کی نوبت بھی آئی لیکن ان کی ہر تقریر کا ہر موضوع منفرد ہوتا تھا اور جس موضوع کو بھی چھیڑتے اس میں لطائف و اسرار کے ایسے گل ولالہ بکھیرتے کہ حقائق ومعارف کے چمنستان میں نئی بہار آجاتی، ان کے علوم اکتسابی سے زیادہ وہبی تھے، مشکل سے مشکل مسائل کو بلا تکلف سامعین کے ذہن میں انڈیل دینا اور بات بات میں نکتہ پیدا کرنے میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت حکیم الاسلامؒ کو تصنیف اور خطابت دونوں میں کمال عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ انتظامی مشاغل کے ساتھ سفروں کی کثرت بھی حضرتؒ کی زندگی کا جز و لازم بن کررہ گئی تھی حساب لگایا جائے تو عجب نہیں کہ آدھی عمر سفر ہی میں بسر ہوئی ہو، لیکن حیرت ہے کہ ان مصروفیات کے باوجود آپ درس و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے تھے۔ چناں چہ آپ کی بہت سی تصانیف آپ کے بلند علمی مقام کی شاہد ہیں اور ان کے مطالعہ سے دین کی عظمت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں تک وعظ و خطابت کا تعلق ہے اس میں تو اللہ تعالیٰ نے حضرتؒ کو ایسا عجیب و غریب ملکہ عطا فرمایا تھا کہ اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔‘‘ (۴۹) مولانا قاری ابوالحسن صاحب اعظمی لکھتے ہیں : ’’حضرت حکیم الاسلامؒ کی حیات کے اہم ترین عناصرمیں نہایت پرکشش پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ایک بے مثال واعظ اور خطیب تھے، حقیقت یہ ہے کہ وعظ و تقریرمیں علماء اور واعظین کی صف میں آپ کا کوئی مثیل اور ثانی نہ تھا، آپ بلاشبہ امتیازی مقام کے حامل تھے، اس میں آپ کو ایسا ملکۂ راسخہ حاصل تھا جسے موہبت الٰہی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دورانِ تقریر ایسامعلوم ہوتا تھا جیسے ایک چشمہ رواں ہے اور ایک ایسا آبشارہے جو اوپر سے نیچے کی نہایت یکسانیت اور سکون کے ساتھ اپنے جلو میں علوم و معارف اور اسرار و حکم کو لئے بہہ رہاہے۔‘‘