حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
چھوڑئیے، کہنا یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں کچھ اطمینان بخش نہیں ہے۔ معاف کیجئے اس کے ذمہ دار صرف طلباء ہی نہیں اساتذہ بھی ہیں ، ایک وقت وہ تھا جب حضرت شیخ الہندؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت علامہ کشمیریؒ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒاور شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحبؒ، جیسے اکابر اساتذہ کی نورانی جماعت تھی، عالمانہ عظمت، استاذانہ وقار اور مربیانہ دبدبہ قائم تھا، ان سے استفادہ تو بہت بڑی سعادت تھی، ان کی زیارت بھی استفادہ کا ایک وسیع باب تھا۔ ان کے چہروں پر اتباع سنت کا نور، زندگی میں تقویٰ ، اخلاص، تواضع ومعرفت کا سرور تھا، دیکھنے والے ایک نظرمیں ان سب کا اکتساب کرتے، ان کی بے داغ زندگی سے سبق لیتے، ان کے کردار و عمل اور اخلاق و سیرت سے متاثر ہوتے۔ مشہور ادیب اور عالم دین حضرت مولانا حامد الانصاری غازیؒ اپنے استاذ محترم حضرت علامہ کشمیریؒ کا سراپا لکھتے ہیں : ’’جسم نور کی چادر میں لپٹا ہوا، چہرہ چودہویں رات کا چاند، رنگ چاند کی چاندنی میں دھلا ہوا، پیشانی شاہی جامع مسجد کی محراب، آنکھ اکثر رکوع میں رہتیں ، جب قیام کے لئے اٹھتیں تو نور یقین کی چمک سے چاندنی پھیل جاتی، چلتے تو راستہ بن جاتا، نظر اٹھتی تو ہجوم کے دو ٹکڑے ہوجاتے اور صراطِ مستقیم تیار ہوجاتی، ایسا معلوم ہوتا کہ جنت کے سبزہ زار سے کوئی فرشتہ زمین پر اتر آیا ہے، سچ ہے کہ کشمیر کی طرح جنت نظیر تھے۔‘‘ (۴۵) شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ کے علمی دبدبہ اور عالمانہ وقار کی روایتیں تواتر کے درجہ میں ہیں ، بروایت استاذ محترم حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ جب احاطہ دارالعلوم میں چشمہ لگا کر قدم رکھتے تو طلبہ ادب و احترام میں سمٹ سمٹ جاتے۔ دارالعلوم میں علم و فضل کی جن مثالی ہستیوں کا اجتماع تھا وہاں ’’ہر گلے را بوئے دگراست‘‘ کا معاملہ تھا ۔آخر میں حکیم الاسلامؒ تو گویا فخرِروزگار ہستیوں کا عکس جمیل لئے ہوئے۔ یوں سمجھئے کہ ’’فرشتوں کی دنیا کا ایک انسان یا پھر انسانی دنیا کا ایک فرشتہ ہی تھے۔‘‘ حکیم الاسلامؒ کے تدریسی امتیازات کے بارے میں سینکڑوں نہیں ہزاروں تلامذہ کی شہادتیں اگر جمع کی جائیں تو بیان و روایت کے اختلاف کے باوجود قدرے مشترک وصف ’’تدریسی کمال‘‘ ہی سامنے آتا ہے۔ حکیم الاسلامؒ ہمہ جہت انتظامی، دعوتی، ملّی اور تصنیفی مصروفیتوں کے ساتھ تدریس کے میدان میں بھی ایک خاص ذہن اور صلاحیت لے کر آئے تھے، آج تو خیر مشکل ہی ہے، اس وقت بھی شاید ہی دنیا کا کوئی مہتمم اس شان کا رہا ہو کہ انتظامی بکھیڑوں کے ساتھ تدریس میں ایسا باکمال ثابت ہوا ہو،مشکوٰۃ شریف انہوں نے اپنے والد محترم فخر الاسلام حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ سے پڑھی تھی اور طویل زمانہ تک مشکوٰۃ ہی کا درس دیا، انداز تفہیم کس غضب کا تھا ذیل کے اس واقعہ سے اندازہ کیجئے ،خود فرماتے ہیں کہ: