حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کیفیت میں خوف زدہ سے بچے رنگے ہا تھوں پکڑے گئے تھے، اچانک ابا جیؒ کے چہرے پر مسکرا ہٹ آئی اور یہ کہتے ہوئے واپسی کے لئے مڑگئے ’’نا معقو ل کہیں کے۔‘‘ گر میوں میں آم کے مو سم میں وہ بچوں کے سا تھ صحن میں بیٹھ کر آم کھا تے اور اسی دوران کسی بھی بچے کی طر ف آم کی پچکاری چھو ڑتے ،بس پھر کیا تھا سا رے بچے ایک دو سرے پر آم کے رس کی یہ میٹھی پچکاریاں چھو ڑتے،لیکن کسی بچے میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان پر یہ رس بھر ی پھوار چھوڑتا ،مگر وہ بچو ں کو کھیل میں لگا کر خوب محظوظ ہو تے تھے ،کشا دہ صحن میں پہلے آم اور پھر پا نی سے کھیل ہو تا جس میں بچوں کے سا تھ بڑے بھی شا مل ہو جا تے گر میوں کی چھٹیوں میں ابا جی کی بیٹیا ں اور نو اسے نو اسیا ں آئے ہو ئے ہو تے تو وہ اپنی مصروفیا ت میں سے وقت نکا ل کر شا م کو یا رات کو ہما رے سا تھ وقت گزا رنا ضروری سمجھتے تھے، ہمیں بیٹھا کر با تیں کر تے ہما رے دینی معلو ما ت کے لئے کئے سوا لا ت کے جو اب دیتے ، اپنے سفر کے بعض دلچسپ وا قعا ت سنا تے کس مو ضوع پر ان کا وعظ تھا وہ بھی بتا تے ،پھر ہم سے نعتیں ،غزلیں ،نظمیں ، سنتے درمیان میں ادبی لطا ئف بھی سنا ئے جا تے اور ہما ری آپس میں شو خیا ں چھیڑ چھا ڑ بھی جا ری رہتی ، ابا جی دیکھتے اور مسکراتے رہتے ، گر میوں کی چھٹیوں میں ابا جی کی شفقتیں بچوں کے لئے ان کی مجلسیں نئی نسل کی تعلیم و تر بیت کے لحا ظ سے بہترین زمانہ ہو تا تھا۔ قبلہ ابا جیؒ اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ کتنے مشفقانہ اور دوستانہ انداز سے رہتے تھے۔ ذیل میں ’’مالشِ سر کی داستان اور میاں سفیان‘‘ کے عنوان سے ۶۳؍اشعار پر مشتمل حضرتؒ کی طویل نظم ملاحظہ فرمائیے، جو حضرتؒ نے اپنے قلم مبارک سے ڈائری پر تحریر فرمائے اور رحلت سے تین گھنٹے پہلے یہ بیاض جس میں دیگر موضوعات پر بھی حضرتؒ کا منظوم کلام ہے اور نہایت خوش خط اندازسے تحریر فرمودہ ہے میرے ماموں زادبھائی عزیزم محمد سفیان قاسمی کے حوالے فرمائی۔ خوشا وہ وقت کہ میرٹھ کا تھا سفر درپیش اسی مہم میں تھے مصروف سب یگانۂ وخویش سفر کے سارے حوائج تھے منتشر گھر میں اسی کا نظم بنانے میں سب تھے گردوپیش یکایک حضرت سفیان کو خدمتوں کی لگی کہ جس سے راحت وآرام پائے یہ درویش کھڑے ہوئے کہ کریں سر پہ تیل کی مالش کہ نیند آئے سہانی جو ہے دماغ کا عیش یہ جانتے ہوئے کم رہ گیا ہے ریل میں وقت خموش ہوگئے ہم بھی کہ نہ ہوں دل ریش جھکا دیا سرِ تسلیم سامنے ان کے کہ سر پہ جو بھی کریں مشق حسب خاطر خویش