حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ایک بار ان کی والدہ (جو سا رے خاندان کی ’’اما ں جی‘‘تھیں )ان سے کسی با ت پر خفا ہو گئیں ابا جیؒ کو احسا س ہو گیا کہ ماں کا دل رنجیدہ ہے ایک صبح وہ مدرسہ سے لو ٹے حسب عادت سیدھے اما ں بی کے کمرے میں نیچے اور پلنگ کی پٹی کے نیچے زمین پر بیٹھ کر ان کے دونوں پیر پکڑ لئے اور سر جھکا لیا ، ما ں نے بیٹے کی معذرت اور ان کا عمل دیکھا اور خفگی سے منھ دو سری طر ف پھیر لیا ،ابا جی نے خفگی کی شد ت کو بھی محسوس کیا اور ان کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا ،بیٹے کی آنکھیں اشکبار تھیں ، ما ں کے قد مو ں میں ان کی جنت تھی وہ ان ہی قدموں میں بیٹھے تھے، یہ واقعہ والد ہ مر حومہ کا چشم دید ہے جو انھوں نے ہمیں سنا یا ، اس وقت ا با جیؒ خود ناتی پوتوں والے تھے ،کسی بزرگ خا تون نے کہا ’’ بس معا ف کر دو ‘‘کچھ دیر بعد ماں کی نا ر اضگی دو ر ہو ئی تو ابا جی کے چہرے پر طما نیت قلب کا گہر ا اثرتھا ، یہ بھی ہما ر ے بزرگوں کا نا صحا نہ عمل تھا اپنے چھو ٹوں کے لئے کیوں کہ ہر اصلا حی کا م اپنے گھر سے شر وع ہو تا ہے۔ ابا جیؒ بیحد نر م مزاج تھے ،ان کو ڈانٹنا آتا ہی نہیں تھا ، قیام دیوبند میں ہم کھیل کو د کے سا تھ شر ارتیں بھی کر تے تھے ،لیکن مجھے یا د نہیں کہ کبھی ابا جی نے ہمیں سر زنش کی ہو یا شرارتوں سے روکا ہو، بلکہ اکثر وہ ہمارے سا تھ کھیل میں شامل ہو جا تے تھے ایک کر سی پر بیٹھ جا تے ایک گیند ان کے پا س ہو تی، ہم سا رے بچے دو ڑ دو ڑ کر ان کی پھینکی گیند کو اٹھا تے او ر جا کر دیتے جیسے ہی بچہ بھا گتا وہ اس گیند کو اس کی پیٹھ پر ما رتے ، اب بچوں کو اس گیند سے خود کو بچانا بھی ہو تا اور دو با رہ گیند حا صل کر نا بھی ،یہ واقعہ امریکہ میں مقیم میر ی خالہ زاد بہن اور ابا جیؒ کی نو اسی (ان کی سب سے بڑی بیٹی محتر مہ فا طمہ رشید فریدی مر حومہ)سلمیٰ ریا ض نے سنایا، دوسرا واقعہ یہ سنا یا کہ اباجیؒ کے مکان’’ طیب منزل‘‘میں صحن میں آمنے سامنے پہلی منز ل پر دو یکساں انداز کے کمر ے ہیں جو بنگلے کہلا تے ہیں ان میں سے ایک حصہ ابا جیؒ کی اسٹڈی کے لئے مخصوص تھا،تصنیفی کام وہیں بیٹھ کر کرتے تھے،اس میں اند ر کی طر ف ایک کو ٹھر ی تھی اس سے ملحق غسل خانہ تھا کو ٹھری میں دو صندو ق تھے، سارے بچے متجسس کہ ان میں کیا ہے ،طے یہ ہو ا کہ جب ابا جی مد رسے چلے جا ئیں گے تب اوپر جا کر صندوق کا جائزہ لیا جا ئے گا ،حسب پر وگر ام کو ٹھر ی میں پہنچ کر صندوق کھو لے گئے ، سب بچوں کے سر اور ہاتھ صندوق کے اندر تھے، اس میں رکھی چیزوں کا جائزہ لیا جا رہا تھا، ٹا رچ ،قلم ،پینسلیں ، دواتیں وغیرہ تھیں ، ان چیزوں کو دیکھنے میں سب بچے مشغول ومستغرق تھے بے خبری کا یہ عا لم کہ با ہر ہو نے والی آہٹ پر دھیان نہیں دیا ، جب قد موں کی چاپ بالکل پشت پر سنا ئی دی تو دو ایک نے سر صندوق سے با ہر نکالا اباجی ان کے سا منے کھڑے تھے اور بغو ر دیکھ رہے تھے آہستہ آہستہ سب کے سر با ہر نکلے سکتہ کی سی