حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اور اس میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ آپ ہی (فضلاء دارالعلوم) فاتح انگلستان بن سکتے ہیں ۔ یہی صورت برماؔ وغیرہ دوسرے ممالک میں ہے۔ کہ وہاں بھی مدارس قائم ہیں اوراشاعت اسلام میں مصروف ہیں ۔ بہر حال اکابر دارالعلوم دیوبند نے ایسا شجرہ طیبہ قائم کیا ہے کہ دنیا میں کہیں شاخیں ہیں ، کہیں پھول اور کہیں پتیاں ‘‘۔ حضرت نے فرمایا کہ: ’’میں تو ایک طالب علم ہوں اور یہاں آکر سکون محسوس کر رہا ہوں ؛کیوں کہ مچھلی جس طرح پانی میں خوش ہوتی ہے اور وہاں اسے آرام ملتا ہے۔ اپنی برادری میں آکر مجھے قلبی سکون و آرام میسّر ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کو ہمیشہ قائم رکھے۔ یہاں میری حاضری میرے لیے باعثِ سعادت ہے کہ اتنے احباب، دوستوں اور بزرگوں کی زیارت ہوگئی۔ بزرگوں و احباب کی زیارت کرنا اسلام کی روایت ہے۔‘‘ آپ نے مزید ارشاد فرمایا کہ: ’’ہم میں سے کوئی پنجابی ہے۔ کوئی پٹھان ہے اورکوئی کسی خاندان اور علاقہ سے تعلق رکھتا ہے مگر اسلام کے ایک رشتہ نے سب تفاوت اور فرق ختم کردئے۔ ہم میں گوبُعد زمان و مکان ہے مگر رشتہ اسلام کی وجہ سے دلوں میں قرب ہے اور دلوں کے اس تعلق اور محبت کو بُعد زمانی یا مکانی ختم نہیں کر دیتا کیوں کہ عمر کی آخری منزل ہے۔ دل چاہتا ہے کہ جتنے احباب سے ملاقات ہو جائے اتنا ہی کم ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت نے دعا فرمائی اور مجلس ختم ہوگئی۔ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے بذریعہ کار لاہور تشریف لے گئے جہاں جامعہ اشرفیہ میں آپؒ نے قیام فرمایا۔ یہ وہ عظیم درسگاہ ہے جس میں حضرت حکیم الاسلام نور اللہ مرقدہٗ کی متعدد بار تشریف آوری ہوئی ہے اور یہاں بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں سے آپ نے خطاب فرمایا ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے بانی حضرت اقدس مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ حضرت حکیم الاسلامؒ کے خاص رفیق و بزرگ ساتھی تھی۔ جامعہ اشرفیہ کے موجودہ مہتمم اور حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب اور نائب مہتمم حضرت مولانا صاحبزادہ عبد الرحمن صاحب حضرت حکیم الاسلامؒ کے خلفاء و مجازین میں سے ہیں اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے خاص عشاق میں سے ہیں ۔ پاکستان میں حضرت حکیم الاسلامؒ کے فیض یافتہ حضرات کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور حضرتؒ کے ہزاروں مریدین و تلامذہ ملک بھر میں دینی علمی اور تبلیغی خدمات میں مصروف ہیں ۔ پاکستان میں حضرتؒ کا یہ آخری دورہ تھا۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس ۱۹۸۰ء میں دیوبند میں منعقد ہوا جس کی مختصر رپورٹ آگے آرہی ہے۔