حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
علم و تقویٰ کے اسا طین سے ما لا مال اس عظیم الشان ادارے کے علما ء عظام کی خدما ت جلیلہ کا ذکر کرتے ہو ئے ایک در خواست کرنا چا ہتا ہو ں بلکہ اگر ذر اجرأت کر دوں تو کہہ سکتا ہو ں کہ وہ ہما را ایک واجبی حق ہے جس کا مطا لبہ کررہا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ان علمائے کر ام کا فر یضہ ہے کہ اپنے متفردانہ عقو ل کے نتائج فکر اور بیش بہا علمی فیوض و تحقیقا ت کو عر بی زبان کا جا مہ پہنا کر عا لم اسلا م کے دو سرے علما ء کے لئے استفادہ کا مو قع فر اہم کر یں یہ فر یضہ ان حضرات پر اس لئے عا ئد ہو تا ہے کہ جب کو ئی شخص ہندو ستان کے علما ئے محققین کی کو ئی تصنیف پڑھتا ہے تو اس میں اس کو وہ نئی متفردانہ تحقیقات ملتی ہیں جن کا مدار علیہ گہرے علم او ر وسیع مطا لعے کے علا وہ تقویٰ و صلا ح اور روحا نیت ہو تے ہیں اور چو نکہ ہند وستان کے علما ء و شیوخ کر ام نیکی و صلا ح اور رو حا نیت اور استغراق فی العلم جیسی شر ائط پر نہ صرف یہ کہ پو رے اتر تے ہیں بلکہ سلف صا لحین کے صحیح وارث اور ان کے نمو نے ہیں اس لئے ان کی کتابیں نئی اور کا ر آمد چیزوں سے خا لی نہیں ہوتیں ’’وذلک فضل اللّٰہ یو تیہ من یشا ء‘‘بلکہ ان حضرات کی بعض کتابیں تو وہ ہیں جن میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جو متقدمین علما ئے اکا بر ، مفسر ین و محدثین اور حکما ء کے یہا ں بھی دستیا ب نہیں ہو تیں ، لیکن افسوس اور قلق کے سا تھ کہنا پڑتا ہیکہ ان نا در تا لیفا ت میں سے اکثر بلکہ سب کی سب اردو زبا ن میں لکھی گئی ہیں ،جو گو ہندوستان کی عام اسلا می زبان سہی لیکن عربی کو کثیر الاستعما ل او رعلوم اسلا م کی خا ص زبان ہو نے کا جو شر ف حا صل ہے کہ وہ اردو کو حا صل نہیں ، لہذا یہ علوم اور بیش قیمت تحقیقات جو ہمارے برادران اسلا م علما ئے ہند کا خصو صی حصہ اور کا ر نا مہ ہیں اگر اردو ہی کے قالب میں محبوس رکھی گئیں تو ہم عربی زبان بو لنے والوں سے مخفی اور پو شیدہ رہ کر ہما ری محرومی کا با عث رہیں گی، اس طرح نہ صرف ہمارے سا تھ ہی نا انصا فی ہو گی بلکہ علم و دین کے حق کا بھی ایک بہت بڑا نقصان ہو گا، اس لئے فر یضہ معرفت اور اما نت علم کی ادا ئیگی کیلئے یہ با ت او لین وا جبا ت میں سے ہے کہ ان نفیس شا ہکا ر اور عمد ہ کتابوں کا عربی زبان میں تر جمہ کیا جائے تا کہ ان سے وہ آنکھیں رو شنی حا صل کر یں جو ایسی چیزوں کے لئے بیتاب، تشنہ اور مشتاق ہیں اور جیسا کہ میر ا خیا ل ہے اس اہم ذمہ داری اور کٹھن فر یضہ کی ادائیگی کا کا م اسی ادارہ عا مرہ کے افراد کر سکتے ہیں جو علما ئے کر ام اور طلبا ئے نجباء کا گہو ارہ و سر چشمہ ہے۔ اس مو قع پر جبکہ میں ذمہ داران ادارے کے مشفقانہ طر ز عمل ، نو ازشا ت بزر گا نہ اور طلبا ئے عزیز کے جذبات محبت و اخو ت کے لئے کلمات شکر یہ تحریر میں لا رہا ہوں اپنے مذکو ر ہ با لا حق او ر مطا لبے کو دہر انے کی ایک با ر پھر پر امید ہو کر جر أت کر نا ضروری سمجھتا ہوں اس لئے کہ اگر ان حضرات نے اس فر یضے کی ادائیگی کی طر ف