حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہے چنا نچہ حضرت والا کو سب سے زیا دہ علم ہے کہ اس مبا رک خا ندان کو علا وہ اپنی ما دی اور ظا ہر ی قوتوں اور اپنے خاندانی جا ذب قلوب اخلا ق و شرافت کے بز رگا ن دیوبند کی قوی روحا نی تو جہا ت اور مقبو ل و مستجاب دعائوں سے پوری پو ری امدا د ملی ہے جس کا ظہو ر آ ج لیل و نہا ر میں روز روشن کی طر ح واضح ہے اس لئے ہر واقف حال ـ’’آلِ قا سم ‘‘اپنے آپکو مو جو دہ شا ہی خا ندان سے مر بو ط تصور کیا کرتا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کی خدام جا معۂ قاسمیہ اس قدیم خا ندانی اتحاد کی وجہ سے دولت عا لیہ اسلا میہ کے سا تھ پہلے سے زیا دہ وابستہ ہو گئے ہیں اس لئے دارالعلوم کی مجلس عالیہ انتظا میہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں بطور خود حضرت والا کی خدمت میں حا ضر ہو کر تبادلہ ٔ افکا ر کی سعا دت حاصل کر وں ، میر ا مخلصانہ نقطۂ نظر ذیل کی چا ر دفعات میں یہ ہے کہ: (۱) اس قدیم اتحا د کو بے لو ث اور بے غر ضا نہ طریقے اور عر فا نی اساس پر تر قی پذیرصورت میں با قی رکھا جا ئے۔ (۲) والا حضرت معظم اور دولت عالیہ کے عرفان مآب اور اولیا ء امور کیلئے ایسا مو قع فر اہم کیا جا ئے کہ وہ دارالعلوم جیسے مر کزی اور علمی ادارہ سے بر اہ راست تعا رف حا صل کر سکیں ۔ (۳) دارالعلوم افغا نستان اوردارالعلوم دیوبند کے عر فانی روابط کو محض تعلیمی مقا صد کے لئے اس طر ح تر قی دی جا ئے جس سے دارالعلوم کے اولیا ء امور افغا نستان اور دنیا ئے اسلا م کی تا زہ ترین علمی ضروریا ت کا بر اہ راست اندازہ کر سکیں اور اس اندازے کی روشنی میں آج کے تبدیل شدہ حالا ت میں ایسے علما ء تیا ر کر سکیں جو وقت کے مقتضیا ت کو پید ا کر نے میں دنیا ئے اسلا م کی آزاد حکومتوں کے مقصد و منشا کے سا تھ پورا پورا تعاون کر سکیں اور سلطنت کے مخلص رجا ل کا ر ثا بت ہوں ۔ (۴) اس سلسلے میں ضروری ہے کہ والا حضرت کی رسمی رہنما ئی اور تو جہا ت کے زیر اثر مجھے افغا نستان کی جدید علمی تر قیا ت ، متو قعہ ضروریا ت اور مکا تب عر فا نی کے معا ئنہ اور اکتساب نظر و فکر کا مو قع دیا جا ئے تاکہ ملت افغا نیہ کے عر فانی تصورات کا اصلی خا کہ میر ے سا منے آجا ئے اور دارالعلوم دیوبند کے آئند ہ پروگرام اور بالخصوص افغانی طلبا ء کی تر بیت میں مشعل راہ بن سکے۔ مجھے یہ عر ض کر نے میں کو ئی تأمل نہیں کہ ایک طر ف دنیا ئے اسلا م کی آزاد اور مستقل حکو متوں میں افغانستان ہی وہ دولت ہے جس نے اپنے پورے حلقہ اثر مین اسلا می شو کت اور اثر و نفود کو با قی رکھا ہے اور دوسری طرف دارالعلوم دیوبند ہی وہ مہم ادارہ ہے جس میں اسلا می روح کی حفا ظت کر نے میں پو ری تنظیم اور جرأت سے کا م لیا ہے اس لئے ان دونوں اسلا می مر کزوں میں با ہمی روابط کا استحکام جس در جے ضروری