حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہی قدیم اور کوردہ بستی ہے، اس بستی کی خصوصیت بجز قدامتِ سن و سال یا محل وقوع دارالعلوم ہونے کے اور کچھ نہیں ،یہ بستی برادرانِ وطن کی ایک بڑی تیرتھ گاہ تھی، آج بھی یہاں ایک مورتی بنام ’’دیوی‘‘ جس کے نام پر یہ قصبہ ’’دیبی بن‘‘ سے موسوم ہوا اور کثرت استعمال سے دیوبند ہوگیا‘‘ موجود ہے جس پر سالانہ میلہ لگتا ہے۔ تقریباً چھٹی صدی ہجری سے اس میں آثار اسلام نمودار ہوئے اور تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں اس بستی کے ظلماتی افق پر علومِ الٰہی اور کمالاتِ ولی اللّٰہی کا آفتاب چمکا یعنی ۱۹۵۷ء کے ہنگامہ رُست و خیز کا ہمارے لئے ہندوستان میں اگر معنی خیز نتیجہ نکلا تو وہ دیوبند میں اس علمی درسگاہ کا قیام ہے جس کو مدارِ جماعت قطب عصر فرید دہر حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ نے بالہام الٰہی قائم فرمایا، وقت کے تمام اہل اللہ کے الہامات و بشارات اور غیبی تائیدات کی اجماعی قوت امن کے ساتھ کارفرما تھی۔ یہ دارالعلوم جو اپنی ابتداء میں ایک ضعیف کونپل تھا اور آج ایک تناور درخت ہے، درحقیقت حضرت بانیؒ کے اس خواب کی تعبیر تھا کہ’’وہ بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہوئے ہیں اور اُن کے ہاتھ پیروں کی تمام انگلیوں سے پانی کی نہریں اطراف عالم میں جاری ہیں ’’اور دارالعلوم کے مہتمم اول حضرت مولانا رفیع الدین صاحبؒ اجل خلفاء حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی قدس سرہٗ کے اس رویا کی تاویل تھا کہ ’’علوم کی کنجی میرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے‘‘ اور حضرت سید احمد شہید قدس سرہٗ کے اس مکاشفہ کی تصدیق تھا کہ ’’مجھے یہاں سے علم نبوت کی بو آرہی ہے‘‘ (جبکہ وہ جہاد پنجاب پر جاتے ہوئے دیوبند کے اس مقام سے گذرے جہاں دارالعلوم کی عمارت کھڑی ہوئی ہے اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اس مقولہ کی تفسیر تھا کہ ’’مجھے یہاں علم نبوت کے آثار محسوس ہورہے ہیں ‘‘ (جب کہ وہ ادھر سے گذرے) اور حضرت میاں جی نورمحمد جھنجھانوی قدس سرہٗ شیخ الشیخ حضرت بانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس الہام کی محسوس تصویر تھا کہ فقیر نے ایسی ہانڈ پکائی جو نہ سو برس پہلے پکی ہے نہ سو برس بعد میں پکے گی۔ بہرحال اس معہد دینی کی تاسیس عام مروجہ طریقہ کے فکری یا خیالاتی مشوروں کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اشارات غیب کے ماتحت ایک حقیقت ثابتہ کا ظہور تھی۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد جب کہ داخلی اور خارجی فتنے اپنے تمام ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اُس قوم کے مقابلہ پر صف آرا تھے جس کے سر سے چھپر اتر چکا تھا اور پیر کے تلے سے زمین بھی نکل چکی تھی، وقت کے نبض شناسوں نے اپنی فراستِ ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ آج کی یہ علمی بے مائیگی، اخلاقی تنگ دستی اور اجتماعی بے حسی بغیر ایک ایسے جامع تربیتی ادارہ کے قیام کے رفع نہیں ہوسکتی جس میں علم، اخلاق اور اجتماعیت سے مخلوط پروگرام سے قوم کے نونہالوں کو تربیت دی جائے اور ان کے دل و دماغ کو ایک ایسی