حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بقلو ملت نجیبۂ افغانستان یکسانی و یکجہتی پیدا آمد و علاقہ ہائے عرفانی اساسِ علم و نظر گرفتہ چناں زندۂ و پائندہ شدند کہ آثارش نسلاً بعد نسلٍ متوارث شدہ می روند و خواہند رفت ۔ اعلیٰ حضرت معظم! ازیں حقیقت کسے انکار کردہ نتواند کہ اگر ایک طرف تعاون رجال فعال ملت و حکومت افغانستان معین کار ایں موسسہ اسلامی شدہ دگر طرف مساعیٔ عرفانی ایں دارالفنون بسا رجالِ ملت افغانیہ را بعلم و اخلاق تربیت نمودہ بافغانستان فرستاد کہ بخدماتِ جلیلہ تعلیم و تدریس و پند و خطابت وغیرہ مصروف بکار اند و برائے ما دعا گویان لائق صد شکر و نازش است کہ مجلس ملیہ علمی جمعیۃ علماء افغانستان کہ بامور مملکت اثر و رسوخ دار دہم یک عددِکافی فضلاء دیوبند بدامنش فراگرفتہ کہ اعلاء کلمۂ حق شعار شان می باشد، نیز علم ایں حقیقت برخودِ اعلیٰ حضرت معظم از ہمہ زیادہ است کہ خاندان مبارکہ شاہی را علاقہ بر قوائے ظاہری و مادی و شرافتِ خاندانی خود از توجہات روحانی و ادعیۂ مستجاب و مقبول بزرگان دیوبند ہم امداد کاملے رسیدہ است، بہ علت این اتحاد علمی و عرفانی و تعاون طرفین ہر ہر فرد قاسمی ترقیات خاندانِ اعلیٰ حضرت معظم و ملت نجیبۂ افغانی را عیناً ترقیٔ خویش اعتقاد می کند۔ کشش ہمیں علاقہ ہائے قدیم و جدید و روابط خصوصی و عمومی ذات شاہانۂ ہمایونی را بما غریبان دربن مرکز علمی جمع ساخت و گلاہ گوشہ مایان بآفتاب رسانید تاآنکہ اساسے کہ تخم بود امروز شجرۂ طیبہ گشت کہ اصلھا ثابتٌ و فرعھا فی السماء۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔ اعلیٰ حضرت معظم! بعد از برگشتگیٔ طالع ملتِ اسلامیہ ہندیہ در سنہ یک ہزار و ہشت صد و ہفت و پنجاہ میلادی موسس ایں مرکز دینی کہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم اللہ باشند اولاً مقابلۂ استبداد فرنگ بشمشیر و سنان آغاز نہادند و سپش بقوت فکریۂ عرفانی در سنہ یک ہزار صد و ہفت شصت برائے اباء علوم اسلامی و حفظ جذباتِ حریت و استخلاص و مدافعتِ فتنۂ فرنگ ابن معہد علمی را براصول ہشت گانۂ الہامی خویش تاسیس نمودند و باخلاصے و ایثارے کہ دراساس ایں موسسہ بزرگ پیوستہ شدہ است ایں ادارہ یوماً فیوماً بشاہراہِ ترقی گامزن شدہ می رود کہ از حیثیت یک مکتب خیلے خورد کہ بیک تلمیذ و یک استاذ آغاز نہانی و ترقی دیدہ امروز یک دارالفنون مذہبی خیلے بزرگ و کلاں شدہ کہ ازصیتِ فضل و فیضش چپّہ چپّہ عالم اسلامی سیراب است و نفوس لاتعداد مذہبی آسیا و افریقہ را در مسلک یک نظام اجتماعی و دینی فراگرفت۔ فیضِ گستریہائے این موسسہ عرفان پناہے در مر نود و چہار سالۂ خویش باقدامات علمیہ متنوع الاصناف عظمت بے مثال جلب نمودہ و چناں خدمت حیرت آورے نمودہ است کہ ہمہ ادارہ ہائے مذہبی ہند یکجا شدہ