حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خلق عظیم ہے۔ معاملات کی بنیاد صدق و عفاف پر ہے۔ اگر ایک بھی نہ ہو تو معاملہ سچا نہیں ہوسکتا۔ سیاسیات کی بنیاد عدل و خشیت پر ہے۔ اگر ایک بھی نہ ہو تو سیاست تربیت نہیں بن سکتی لیکن ان تمام ابواب دین میں رسائی اور رسوخ حسن معاشرت اور صفائی معاملات پر موقوف ہے خواہ وہ تدبیر منزل سے تعلق رکھتے ہوں یا قبائل و ماحول اور حلقہ جات سے، تدبیر منزل میں خانگی امور بالخصوص عورتوں کی اصلاح و رعایت، ان کی عفت و پاک دامنی، حجاب و پردہ ان کی گھریلو تعلیم اولاد کی تریبت اور اداء حقوق وغیرہ، پھر قبائلی معاملات میں صدق و عفاف نیت کی اصلاح، رسوم مروجہ کی پابندی کے بجائے رسوم دین کی پابندی پر ہے۔ افراد درست ہوجائیں تو قوم درست ہوجاتی ہے، جس سے سیاست مدنی بنتی ہے اور اس طرح دین اور نظم دین دونوں صحیح رہ سکتے ہیں ۔ ادائِ حقوق اور انسدادِ اتلاف حقوق کے لئے سیاست ہے۔ اسلام کی سیاست کی بنیاد جو سیاست نبوت ہے خوف خدا اور عدل حقوق کے لئے سیاست ہے۔ اسلام کی سیاست کی بنیاد جو سیاست نبوت ہے خوف خدا اور عدل پر ہے۔ مکرو فریب، گندم نمائی اور جو فروشی پر نہیں یہ نفاق بقاء اقتدار اور حصول جاہ و مال کے لئے کیا جاتا ہے، لیکن اسلام نے ایسے اقتدار پسندی تخت و تاج اور بادشاہی کا خاتمہ کرکے خلافت رکھی ہے اور طالب اقتدار کو سونپنے کی ممانعت کی ہے وہاں تنازع للبقاء ہے اور یہاں فنا للبقاء ہے، وہاں اقتدار نفس ہے اور یہاں اقتدار رب ہے، وہاں اپنی بادشاہت ہے، یہاں خدا کی بادشاہت ہے، اس طرح جب معاشرت صحیح ہوگی تو امن و سکون ہوگا اور عبادت کے لئے سب سے پہلے امن و سکون کی ضرورت ہے۔ فتنہ میں عبادت کے بجائے خود نہیں رہتی، اس لئے اسلام نے دین پھیلانے کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی، فتنہ فرو کرنے کے لئے اٹھائی ہے۔ و قاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ و یکون الدین للّٰہ پس عبادت ہو یا اخلاق، سیاست ہو یا نظم ملت، حسن معاشرت اور سچائی معاملات پر موقوف ہے اور اس میں فرد کی اصلاح و تربیت مقدم ہے، سیاست کے دو شعبے ہیں ایک تحفظ ملک کی سیاست، اسے بیرونی سیاست کہا جاسکتا ہے۔ ایک اندرونِ ملک معاملات اس کا نام محکمۂ قضاء اور شرعی عدالت ہے، جس سے شریعت مسلمانوں پر نافذ ہوتی ہے، پس قضاء کا کام مسلمانوں پر حکم شرعی کا اجراء اور عسکریت کا کام ہے، تحفظ ملک کے ساتھ اللہ کے ملک میں اس کے دین کا اجراء و نفاذ قضاء کے ساتھ قوت شامل ہوتی ہے، یہی فرق ہے افتاء اور قضاء میں لیکن اگر سیاسی قوت و شوکت نہ ہو تو پھر یہ ذمہ داری اخلاقی رنگ میں علماء اسلام پر عائد ہوتی ہے مگر اس میں دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک علم صحیح دوسرے فہم سلیم، مجتہدین کے فیصلے کمال علم پر دلالت کرتے ہیں جیسے کمال فہم پر دال ہیں ۔