حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ریل،موٹر اور برقی لائنوں کی لپیٹ میں آکر ختم ہوگئے، پھر جو بد بخت اس سے بھی بھاگ نکلے ان میں سے کروڑوں کو تھوڑی ہی تھوڑی مدت کے وقفہ سے محکمۂ جنگ کے قابل قدر سائنسی اسلحہ ڈریڈ ناٹ مشین گنوں ، زہریلے گیسوں ،خاردار تاروں ،رائفلوں کی گولیوں اور ہوائی جہاز کی بے پناہ بم بازیوں کی کھلاریاں نمٹاتی رہتی ہیں اور جو ان مہلک جھپٹیوں سے بچ کر دادِ عیش دے بھی رہے ہیں تو وہ اپنی عیاشی کی ہوسناکیوں اور وسائلِ عیش کے افراط کے سبب طرح طرح کے امراضِ جسمانی و نفسانی ،فتور ِدماغ ،ضعیف البصری، نامردی ،آتشک، فحش کاری، ہجومِ افکار ، بے اطمینانی اور خلجان وتشویش کا شکار ہیں جس کا انجام پھر ناکارگی یا خود کشی اور اضافۂ موت ہے اور اگر ان ساری ارضی وسماوی آفات سے نکل کر کچھ لوگ صحیح الدماغ اور قوی البدن نمٹ بھی جاتے ہیں تو وہ رات دن انہی مایۂ ناز ایجادات اور سائنسی موشگافیوں کے پیچ و خم میں گرفتار رہتے ہیں جن کی بدولت انہی کا کنبہ مختلف عنوانوں سے ختم ہوتا رہتا ہے۔ انسانی پیداوار اولاً مسدود ہوتی ہے پھر گھٹتی ہے ۔ اس لئے ان ساری تمدنی گہرائیوں اور سائنس کے کارناموں کا حاصل د و لفظوں میں یہ نکلتا ہے کہ قوم کا ایک حصہ مرتا رہتا ہے اور ایک حصہ اسے مارتا رہتا ہے ، ایک حصہ چھریاں تیز کرتا ہے او ر دوسرا ایک حصہ اپنی گردنیں جھکاتا ہے اور اس طرح نہایت سہولت اور سکون کے ساتھ کشتن ومردن کی گردانیں جاری رہتی ہیں اور خود کشی او رغیر کشی کی روشن مثالیں مہیا ہوتی رہتی ہیں ۔ پس اس مارنے اور مرنے یا فساد پھیلا پھیلا کر خود ہی اس کا شکار بننے کا نام تمدن ،تہذیب ، شائستگی، ایثار ، ہمدردی، اخوت، مساوات، عدل ،رفاہ ِعام وغیرہ کا رکھ لیا گیا ہے۔ ع برعکس نام نہند زنگی کافور پس کیا کافرانِ فرنگ کی مادی مساعی کے یہی وہ نمونے ہیں جن کی طرف آج عیسائی قوم نہیں بلکہ ہمارے ہی روشن خیال ہم کو بلا رہے ہیں ، کیا یہی وہ روشن نظام ہے جسے قرآن کا مصداق اور خدا کا منشا باور کرایا جارہا ہے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی ہے جسے ہٹانے پر علماء مجرم ، صلحا ء گردن زدنی اور علماء علمائے سو کہلانے کے مستحق ہوئے ہیں ؟ اینٹی ملاّازم قائم کیا جاتاہے ، مذہب اور اہل مذہب پر آوازے کسے جاتے ہیں ، روحانیت کے شعائر کو سرنگوں کیاجاتا ہے ، تقویٰ و طہارت او ردنیا میں محتاط زندگی گزارنے کو تنگ دلی کہا جاتا ہے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اخلاق و اعمال یعنی مذہب کو لغو ،مانع ترقی اور مخلِ تمدن بتلایا جاتا ہے ، کیوں اور کس بوتے پر؟ اسی سائنسی چمک دمک پر ریجھ کر جس کی حقیقت خود سائنس دانوں کے ہی اعتراف سے کھل چکی ہے‘‘۔(۹۷)