حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کنانؔ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo ’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمالِ بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے۔‘‘ کہیں فرمایا: بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ۔ ’’بلکہ خدانے ان کے قلوب پر مہر کردی ان کے کافرانہ اعمال کے سبب۔‘‘ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا: ایاکم والمحقرات من الذنوب فان الذنب علی الذنب یوقد علی صاحبہ جحیما ضخمتہ۔ ’’چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بہت بچو کیوں کہ گناہ پر گناہ کرتے رہنا اس گناہگار پر آگ روشن کردیتا ہے۔ یعنی صغائر سے کبائر پر جرأت ہوتی ہے اور کبائر سے استخفافِ معاصی اور کفر پر اور یہی آگ کا پیش خیمہ ہے۔مجاہد کہتے ہیں : القلب کالکف فاذا اذنب انقبض واذا اذنب ذنبًا اٰخرًا انقبض ثم یطبع علیہ وہوالرین۔ ’’قلب مثل کف ِ دست کے کھلا ہوا ہے یعنی منشرح ہے ۔جب گناہ کیا جاتا ہے تو سکڑ جاتا ہے پھرکیا جائے تو اور سکڑ جاتا ہے یہاں تک کہ بالآخر اس پر مہر کردی جاتی ہے اور یہی زنگ ہے یعنی قبولِ حق کی استعداد بھی باقی نہیں رہتی۔‘‘ اس لئے حدیث ابی ہریرہؓ میں فرمایا گیا کہ: اذا اذنب الانسان حصلت فی قلبہ نقطۃ سوداء حتی یسودالقلب۔ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے ۔جوں جوں وہ عملِ بد کرتا رہتا ہے یہ ظلماتی نقطہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ آخر کار قلب سیاہ پڑجاتا ہے ۔گناہ کے دواعی قوی ہوجاتے ہیں اور توبہ کی توفیق مسلوب۔ بہر حال جس طرح پہلی نوع کی احادیث نے قلوب میں ایمانی کیفیات ،ایمانی اخلاق راسخ ہونے کا