حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حبسِ وقت کے حیل حجتوں سے لاکھوں کروڑوں جمع کرلیتے مگر آپ جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے اس کی توقع تو درکنار اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آپ نے اپنی تمام تر خداداد صلاحیتوں کو دین مبین کی اشاعت، اساطین امت کے تعارف، مسلک دیوبند کی ترجمانی اور علمائے دیوبند کی تشریح و تفہیم میں صرف کیا اور جس وقت جس صلاحیت کو جس میدان میں آزمانے کی ضرورت پیش آئی اخلاص و للٰہیت اور حسن نیت کے ساتھ میدان میں اترے اور سرفرازی کے ساتھ لوٹے۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ مسلک دیوبند کے تعارف اور علمائے دیوبند کے دینی موقف و مزاج کی وضاحت سے حکیم الاسلامؒ کی کوئی تقریب، کوئی تحریک اور کوئی گفتگو خالی نہیں رہی۔ مواعظ اور تصانیف میں ہر جگہ کہیں راستوں پر اور کہیں ضمناً مسلک دیوبند اور علماء دیوبند کا بھرپور تعارف کرایا۔ زندگی کے آخری ایام میں اس موضوع پر آپ کے حکیمانہ و عالمانہ قلم سے’’ علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج‘‘ ایک جامع اور شاہکار تصنیف وجود میں آئی۔ کتاب ہذا کا علمی و تحقیقی معیار کتنا بلند ہے؟ عالم اسلام کی معروف دینی شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی یہ شہادت اس کا اندازہ کرنے کے لئے کافی ہے: ’’ جہاں تک اس کتاب کے مضامین کا تعلق ہے، ا س کے بارے میں احقر ناکارہ کا کچھ عرض کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مرادف ہے، اس سے زیادہ کچھ کہہ کر میں آپ کے اور کتاب کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہتاکہ کسی پڑھے لکھے مسلمان کو بالخصوص دینی مدارس کے کسی استاذ یا طالب علم کو اس کتاب کے مطالعہ سے محروم نہ رہنا چاہئے بلکہ دینی مدارس میں اس کتاب کے مطالعہ یا تدریس کو نصاب کا حصہ بننا چاہئے‘‘ ۔(۳۹) ذیل میں کتاب ہذا کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے: ’’حاصل یہ نکلا کہ جس جماعت میں السنۃؔ اور الجماعۃؔ کے دونوں بنیادی عنصر موجود ہوں قرنِ نبوت سے تسلسل اور سندِ متصل کے ساتھ اس کا سلسلہ ملا ہوا ہو۔ نبی اکرمؐ سے سلسلہ بہ سلسلہ اس کی توثیق ہوتی آرہی ہو۔ صحابہ کی اس پر شہادت اور اشاعت کی مہر ثبت ہو تو وہی جماعت فرقۂ حقہ ہوگی اور اسی کو قدیم اور اصل کہا جائے گا نہ کہ نوزائیدہ اور نومولود یا وقت کی پیداوار کو جو ان دو عنصروں میں سے کسی ایک سے کٹی ہوئی ہوں اس لئے جو طبقہ اس سے کٹ جائے گا وہی اختلاف کنندہ شمار کیا جائے گا، نہ کہ اس جماعت کو جس کی اصل کسی اختلاف و شقاق کی زمین پر قائم نہیں بلکہ اصل پر قائم ہے۔ اس لئے اسے اختلاف کنندہ یا شقاق پر قائم شدہ نہیں کہا جائے گا‘‘۔ (۴۰)