حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
انتظامی خصوصیات عطا کی تھیں ، حضرت ؒ ایک اعلیٰ منتظم و مدبر تھے جس کی دلیل نصف صدی سے زائد تک بڑے ہی حسن انتظام کے ساتھ منصب اہتمام پر فائز رہے وہ ایک عظیم خطیب و واعظ ،اچھے ادیب و شاعر اور باکمال مصنف تھے، جن کے قلم زر نگار نے تقریباً پانچ(۵۰۰) سو کتابیں تصنیف کیں ، وہ ایک بہترین معلم و مدرس اور مختلف علوم و فنون کے جامع تھے ، اسی طرح وہ ایک روحانی مصلح و مربی اور عظیم پیر و مرشد بھی تھے اور خصوصاً وہ انتہائی متواضع اور منکسر المزاج انسان تھے ۔ آخر میں مو صوف نے دا ر العلوم دیو بند کے ذمہ دارن کومشورہ دیا کہ انہیں چاہئے کہ حضرت حکیم الاسلام ؒکی مکمل سوانح حیات مرتب کرائیں ، جس میں خاص طور پر ان کی ۵۴؍سالہ علمی ودینی اور اصلاحی و انتظامی خدمات کا مکمل جائزہ و تعارف کرا یا جا ئے مو لا نا ابو العاص صاحب وحید ی نے کہا کہ حضرت الاستاذحکیم الاسلامؒ کی شخصیت ایک پو ری جماعت اور ایک بڑی انجمن تھی ، دیکھنے کو تو وہ ایک تھے لیکن ان کے اندر مدبر و منتظم معلم و مدرس ادیب و شاعر ، حکیم و دانشور ، مصنف و مؤلف ،خطیب ومقرر اور خدا جانے نہ معلوم کون کون سی شخصیتیں پو شیدہ تھیں ، اس طرح حکیم الاسلامؒ اس دنیائے فا نی سے کیا منتقل ہو ئے علوم وفنون کا ایک قافلہ اور فکرو فن کی ایک پو ری انجمن دنیا سے کو چ کر گئی ۔ حضرت حکیم الاسلام ؒ کے تمام اوصاف و کمالات میں ان کی علمی وسعت و گہرائی اور حکمت و دانشمندی نمایا ں ترین صفت تھی ، ان کا حکیمانہ اسلوب ان کے تمام علمی و ادبی کمالات و خصوصیات میں جلوہ گر تھا ، اسی لیے عالم اسلام نے انہیں حکیم الاسلامؒ کے لقب سے نوازا۔ آخر میں مو صوف نے اس حقیقت کو مفصل طور پر واضح کیا کہ اسلاف واکابر کی اصل یاد یہ ہے کہ ان کے کارنامے زندہ کیے جائیں ، ان کے اوصاف و خصوصیات کواپنا یا جائے ، اللہ تعالیٰ ہم تمام متعلّمین کو اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔ آمین ! پھر پرو گرام ختم ہوا اور زبانوں پر یہ دعائیہ کلمات تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت حکیم الاسلامؒ پر اپنے فضل وکرم کی بارش کرے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فر ما ئے اور ملت اسلامیہ کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ رکھے ۔ آمین!تقبل یا ربَّ العٰلمین۔ ……v……