حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جس نے سلجھائیں ہمیشہ علم و فن کی گتھیاں جس نے سمجھائیں جہاں کو دینِ حق کی خوبیاں جس کی اخلاقِ معلّی سے مجلّی تھی سرشت عاجزی کے نور سے تاباں تھیں گفتار نشست جس کا شیوہ پا ک دامانی و خودداری تھی خو قاسمؒ و احمد ؒ کے وارث میں تھے ان کے رنگ و بو پیکرِ صبر و رضا تھا، خوگرِ تسلیم تھا وہ امام علم و حکمت رہبرِ تعلیم تھا صاحب حلم وحیا تھا زاہد و اہلِ غنا وہ امین و باصفا تھا ، صاحبِ صدق و وفا عشقِ حق کی آگ تھی سینے میں جس کے مشتعل عشقِ پیغمبر سے تھے لبریز جس کے جان و دل جس کی صورت بھی حسیں تھی اور سیرت بھی حسیں اہلِ دل کا دلبر و دلدار تھا وہ مہ جبیں ہو گیا رخصت جہاں سے وہ نگارِ دیوبند جا بسا خلدِ بریں میں تاجدارِ دیوبند آہ دنیا سے ہوا رخصت امامِ روزگار وہ سراپا حلم و بحر علم اور کوہِ وقار فیض شیخ الہندؒ سے معمور جب سینہ ہوا نورِ انور شاہ ؒ سے پرنور جب سینہ ہوا در گہِ اشرف علیؒ کے فیض سے احمدؒ کا لال قاسمِ ثانی بنا وہ صاحبِ فضل و کمال بن گیا فخرِ الاماثل علم و فن کا آفتاب راہِ عرفان وتصوف کا درخشاں ماہتاب ہو گیا مشہور وہ اسلام کا یکتا حکیم ہو گیا صدر الافاضل قوم مسلم کا زعیم اہلِ حق نے اس کو مانا اپنے مسلک کا امام کر دیا اس کے حوالہ دیوبند کا اہتمام اس کے شایاں تھا یقیناً دیوبند کا اہتمام اس کی ابرو کا اشارہ بس تھا بہرِ انتظام فیض طیبؔ سے ہوا سیراب جب وہ گلستاں ہوگئی ہر شاخ اس کی پُر بہار وگل فشاں دیوبند کا مدرسہ تھا بن گیا دارالعلوم تشنگانِ علم و فن کا ہو گیا اس پر ہجوم باغباں نے ہر روش اس کی سجائی خوب تر بھر دیے دامن میں اس کے بے بہا لعل و گہر اس کا اٹھاون برس چمکا ہے دور اہتمام لائقِ صد آفریں تھا اس کا حسنِ انتظام جس نے چمکایا جہاں میں خوب نامِ دیوبند زخمی دل لے کر گیا ہے وہ امام دیوبند شکر و صبرِ بیکراں کے لوٹ کر سب مرتبے سو گیا وہ رحمتِ رحمن کے سائے تلے رحمتِ حق نے بلایا اس کو باغِ خلد میں مل گیا رحمت کا سایہ اس کو باغِ خلد میں جب چلا خلدِ بریں کو نازنینِ دیوبند بن گئی ماتم کدہ اُف سر زمینِ دیوبند گلستانِ علم و فن کی ہیں بہاریں سوگوار اب کہاں ہے ایسا یکتا باغبانِ نامدار