حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
وہ جس کو دیکھ کر ہرغنچۂ و گل مسکراتے ہیں ملائک آسماں سے بہر استقبال آتے ہیں زباں پر جس کی بہتا ہوا حکمت کا دریا تھا وہ جس کی ذات سے اسلام کا بھی بول بالا تھا جہاں میں ہر طرف جس کی ضیاؤں کا اجالا تھا صحابی تو نہیں لیکن صحابہ کا نمونہ تھا وہ جس کی نقل و حر کت میں دروسِ عشق پا تے ہیں ملائک آسماں سے بہر استقبال آتے ہیں ولایت کو شرف ہے تاجدارِ اولیا تم تھے لباسِ زہد نازاں ہے کہ زاہد با صفا تم تھے یہ ملت فخر کر تی ہے کہ اس کے مقتدا تم تھے ہے ناز اپنی جماعت کو مبصّر رہنما تم تھے تری اِک اِک ادا پر ہم یہ اشکِ خوں بہاتے ہیں ملائک آسماں سے بہر استقبال آتے ہیں کہوں اب الوداع اے زینتِ ہر بزم ایمانی ہمیں رہ رہ کے یا د آئی تری اک ایک قر با نی کرے خود ربِّ عالم تیرے گلشن کی نگہبانی ترے مر قد پہ دائم ہو فلک کی شبنم افشانی خدا رحمت کا دریا ایسے پیاروں پر بہا تے ہیں ملائک آسماں سے بہر استقبال آتے ہیں الٰہی اس جماعت کا نہ شیرازہ بکھر جائے نہ جانے قافلہ جنگل میں ٹکرا کر کدھر جائے تری رحمت سے رفتہ رفتہ حال اس کا سدھر جائے بڑھا دستِ کرم زلف پریشاں اب سنور جائے غضب ہے آج ہم کیا گوہر یکتا گنواتے ہیں ملائک آسماں سے بہر استقبال آتے ہیں یہ کیسے شیرِ ملت آج زیرِ خاک سوتے ہیں یہ کیسے بلبلِ نغمہ سرا خاموش ہو تے ہیں نہ ہو گا حق ادا خونِ جگر سے بھی جو روتے ہیں سفینہ علم و حکمت کا بھنور میں آج کھو تے ہیں غلط ہے ذوقؔ اس دنیا سے جو ہم لَو لگا تے ہیں ملائک آسماں سے بہرِ استقبال آتے ہیں (مو لا نا محمد سلطان ذوقؔ صاحب استاذ حدیث و ادب جا معہ اسلامیہ چاٹگام بنگلہ دیش )