حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تھی، یہ سن کر سیٹھی صاحب نے کہا کہ عمر تو بہت تھوڑی ہے مگر بات انہوں نے بڑے تجربہ کاروں کی سی کہی، پھر اس کے بعد انہوں نے حضرت کو میری گفتگو سنائی، حضرت نے فرمایا کہ : ’’جو کچھ محمد سالم نے کہا ہے وہی قطعی طورپر میرے دل میں ہے۔‘‘ اس پر سیٹھی صاحب نے کہا کہ: ’’محمد سالم کی بات سن کر میں تو ڈر گیا ہوں اور اب میری رائے بالکل بدل گئی ہے۔ اب اگر حضرت پاکستان میں ٹھہریں تو سر آنکھوں پر اور واپس انڈیا جانا چاہیں تو اس کے لئے ہرممکن تعاون دینے کے لئے تیار ہوں ۔‘‘ اس کے بعد پھر حضرتؒ نے مجھ سے فون پر بات کی اور فرمایا کہ سیٹھی صاحب نے تمہاری گفتگو مجھ سے نقل کی، یہ میرے دل کی وہ آواز تھی جسے تم نے بڑے سلیقے سے ان تک پہنچا دیا اور سیٹھی صاحب اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ میری واپسی کے مؤید بن گئے، اس کی وجہ سے الحمد للہ صورت حال قطعاً بدل گئی لیکن ہمارے پاس پاسپورٹ نہیں ہے، میں اس کے لئے بھی کوشش کرتاہوں ، میرا کافی دیرینہ تعلق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہارویؒ (ناظم جمعیۃ علماء ہند) سے تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہی تن تنہا حضرت حکیم الاسلامؒ کی ہندوستان واپسی کے بہ خلوصِ تمام متمنی تھے، میں فوراً دہلی پہنچا اور مولانا مرحوم کو صورتِ حال سے آگاہ کیا، وہ اسی وقت مجھے ساتھ لے کر مولانا ابوالکلام آزاد، وزیر تعلیم حکومت ہند کے پاس پہنچے اور صورت حال بتائی۔ مولانا نے جواب دیا کہ : ’’مولانا طیب صاحب ملک کے قیمتی افراد میں سے ہیں اور ان کا آنا ضروری ہے۔‘‘ اور نیا پاسپورٹ بنوانے کے لئے مولانا آزاد نے وعدہ فرمایا۔ تین روز بعد میں خود مولانا کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ: ’’ کراچی میں انڈین ہائی کمیشن کو کہہ دیا گیا ہے۔ آپ والد صاحب سے کہئے کہ وہ انڈیا ہائی کمیشن کراچی تشریف لے جا کر پاسپورٹ وصول کرلیں ۔ احقر نے دہلی سے حضرت کو فون کیا، حضرت کو لے کر یوسف سیٹھی صاحب ہی انڈین ہائی کمیشن گئے مگر وہاں سے جواب ملا کہ ہمارے پاس کوئی ہدایت نہیں آئی ہے۔ غرض دو مرتبہ ایسا ہی ہوا، پھر مولانا آزاد نے وزارت خارجہ سے خصوصی رابطہ قائم کرکے ہائی کمیشن کو ہدایت بھجوائی اور بحمداللہ مولانا حفظ الرحمن ؒکے تعاون اور مسلسل ایک ماہ کی میری کوشش کے بعد حضرت کو اور حضرت کے ساتھ حضرت کے چھوٹے بھائی مولانا محمد طاہر صاحب دونوں حضرات کو نئے پاسپورٹ دیدئیے گئے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ چند روز بعد پانی کے جہاز سے کراچی سے بمبئی کے لئے روانہ ہوگئے، ہم لوگ کافی تعدادمیں ایک روز قبل استقبال کے لئے بمبئی پہنچ چکے تھے، وہاں سے فوراً ہی بذریعہ ریل دیوبند کے لئے روانہ ہوگئے، یہاں بھی طلبہ اور اہل شہر نے پُرخلوص استقبال کیا، پھر دارالعلوم میں جلسہ ہوا، جس میں