حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جامعہ میں ایک تاریخی خطاب فرمایا!آپ کے یہ دونوں سفر نہا یت مفید ثابت ہوئے،براعظم افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی دارالعلوم کے تعارف کا حلقہ وسیع ہوگیا۔ چونکہ قاہرہ کی عا لمی کا نفر نس میں تمام دنیائے اسلام کے نمائندے موجود تھے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پورے عالم اسلام میں دارالعلوم متعارف ہوگیا،جسکا ذریعہ آپ کی ہی شخصیت بنی۔ سفر حج سے مراجعت پر ’’مبارکبادِ حج‘‘ کے عنوان سے ہندوستان کے مشہور شاعر علامہ انور صابریؒ نے یہ منظوم کلام آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ نور چشمانِ اکابر اے امامِ علم دیں اے حکیم الامتِ فخر امم کے جانشیں صاحب نورِ بصیرت پاک دل، روشن ضمیر دانشِ حاضر کی منزل میں نہیں تیرا نظیر عارضِ ایماں کی خاطر وجہِ تابانی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ چراغِ بزم عرفانی ہے تو صاف خواب دیدۂ اسلاف کی تعبیر ہے تو علوم قاسم الخیرات کی تفسیر ہے تیری تقریروں میں ملتا ہے حقیقت کا شعور تو بزرگوں کا ہے بے شک جوہر مافی الصدور تیرا فیضِ حکمت قرآں جہانگیرانہ ہے سارا عالم تیری زلف عشق کا دیوانہ ہے تیری ہستی پیکر تعمیل ارشادِ رسول تیرے درس زیست کے قائل ہیں اربابِ عقول آج کا ہر فلسفہ تیری نظر کی حد میں ہے ارتقاء کے تازہ ذہن کامراں کی زد میں ہے تونے افریقہ کے صحراء کو کیا شادابِ علم مصر کو بخشا خرد کا گوہر نایاب علم جامعیت تیری ہر شعبے میں ہے مانی ہوئی غایتِ ادراک کی صورت ہے پہچانی ہوئی دین کی تبلیغ کا ہر اک قرینہ تجھ میں ہے جذبِ احکامِ الٰہی کا مدینہ تجھ میں ہے پیش آئیں دوسروں کو جب بھی فقہی مشکلات تونے سلجھائے جو تھے الجھے ہوئے دیں کے نکات تیرا ’’سالم‘‘ باپ دادا کا امینِ راز ہے کائنات علم کو اس کی سمجھ پرناز ہے تیرے ’’اسلم‘‘ میں فراست کا مکمل بانکپن تیرا ’’اعظم‘‘ وقت کی محفل میں شمعِ انجمن حج بیت اللہ کا تازہ مبارک یہ شرف رحمتیں لائیں فرشتے تیری جانب صف بہ صف عرش پیما زندگی کا تیری یوں اقبال ہو حاضری باب رسالت تک تری ہر سال ہو کاش اک ایسا سفر تیری رفاقت میں ڈھلے نعت انورؔ صابری ہر گام پر پڑھتا چلے