محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ذیلی اجارہ کا حکمِ شرعی (Sub Leasing) مسئلہ(۳۴۱): ذیلی اجارہ کو عربی میں ’’ إجارۃ علی الإجارۃ ‘‘ کہا جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مستاجر کسی شخص سے کوئی چیز کرایہ پر لینے کے بعد پھر آگے کسی دوسرے کو کرایہ پر دیدے،اس کی تفصیل یہ ہے، کہ ایک شخص نے مثلاً کسی سے مکان کرایہ پر لیا ، پھر مستاجر نے موجر کی اجازت سے اسی مکان کو کسی اور شخص کو کرایہ پر دیدیا اگر اس ذیلی اجارہ (Sub Leasing)میں اصل عقد کے برابر یا اس سے کم کرایہ طے کیا جائے اور موجر (Lessor) نے اس عقد کی اجازت بھی دیدی تو یہ ذیلی اجارہ تمام فقہاء کرام کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے ، اور اگر موجر نے ذیلی اجارہ کی اجازت نہیں دی ،تو تمام فقہاء کرام کے نزدیک بالاتفاق یہ عقد (Contract)جائز نہیں ہوگا ، اور اگر اس ذیلی اجارہ میں مستاجر نے آگے کسی اور شخص کو اصل عقد سے زیادہ کرایہ پر دیا، تو اس صورت کے جواز وعدم جواز میں حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ کی آراء میں اختلاف ہے،حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے فقہاء کرام کے نزدیک مستأجر کے لئے یہ کرایہ وصول کرنا جائز ہے، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ مستاجر کے لئے مستاجر ثانی (Sublessee) سے اصل عقد سے زیادہ کرایہ وصول کرنا دوصورتوں کے ساتھ جائز ہوگا۔ (۱)… پہلی صورت یہ ہے کہ مستاجر جب کسی چیز کو کرایہ پر لے تو اس شئ ماجور میں اپنی جانب سے کسی عین کا اضافہ کردے، مثلاً زمین کرایہ پر لیا تو اس میں نہر کھدوادے یا کنواں کھدوادے ،یا اس زمین میں کوئی عمارت تعمیر کرادے ، یا اس زمین کے ساتھ کوئی اور اپنی زمین ملادے ، پھر اسے دوسرے کرایہ دار کو کرایہ پر دے، تو اب اس