محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مصلحت مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں ، زینے ، دروازے ، چوکھٹ ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا، مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کرکہ کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے، عموماً کفر کا راستہ اختیار کرلیتے (إلا ما شاء اللہ) ، اور یہ چیز مصلحتِ خداوندی کے خلاف ہوتی، اس لیے ایسا نہیں کیا گیا، حدیث میں ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر ایک مچھرکے بازو کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا ،حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’ یعنی کافر کو اللہ نے پیدا کیا، کہیں تو اس کو آرام دے ، آخرت میں تو دائمی عذاب ہے، کہیں تو آرام ملتا، مگر ایسا ہو توسب ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں‘‘۔(عثمانی)علماء پر ایک جاہلانہ اعتراض : آج کل معاشرے میں علماء کرام کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ معیشت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ، بلکہ الٹا معاشرے پر بوجھ ہیں ، اور ان کو بے کار پرزہ سمجھا جاتا ہے، اس سے بعض دیندار لوگ بھی متاثر ہوکر یہ کہتے ہیں کہ واقعی علماء حضرات کو اپنے گزران کے لیے کوئی ہنر سیکھنا ناگریز ہے ، تاکہ دین کے کام کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنی بیوی اور بال بچوں کی گزران کا انتظام کرسکیں ۔ یہ اعتراض بالکل بے جا اور غلط ہے ، کیوں کہ اولاً تو بہت سے علماء کرام ایسے ہیں جو تبلیغ، تصنیف ، تالیف، خطابت، تدریس وغیرہ کے فرائض کے ساتھ ساتھ کسبِ معاش کے لیے کسی نہ کسی ذریعہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں، تاکہ حلال روزی کا اکتساب ہو، اور بہت سے علماء کرام جو اللہ کے بھروسے پر دین کی خدمت کررہے ہیں ، انہیں ’’قوت لا یموت‘‘ کے مقدار تنخواہ ملتی ہے، یہ حضرات دینی کام کی نہیں بلکہ حبسِ وقت کی تنخواہ لیتے ہیں ۔