محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
باب البدعات والرسومات (بدعات ورسومات کا بیان) ماہِ محرم کی بعض بدعات وخرافات کا حکم مسئلہ(۲۱): ماہِ محرم میں تعزیہ مع علم کے نکالنا اور اس کے ساتھ مرثیہ پڑھنا، نیز جلوس کے ساتھ شریک ہونااور نذرِ حسین کی سبیل نکالنا، اس کا پینا اور پلانا اور اس کو کارِ ثواب سمجھنا یہ جملہ امور بدعت وناجائز اور روافض کا شعار ہیں(۱)، البتہ ایصالِ ثواب بلا تقییداتِ مخترعہ کے درست ہے ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ الصحیح البخاري ‘‘: عن عائشۃ قالت : قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد ‘‘ ۔ (۱/۳۷۱،کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود، مشکوٰۃ المصابیح : ۱/۲۷، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ، الفصل الأول) تعزیہ داری درعشرِمحرم یا غیر آن وساختن ضرائح وصورتِ قبورو علم تیار کردن دلدل وغیر ذلک ایں ہمہ امور بدعت است نہ درقرنِ اول بود نہ در قرنِ ثانی نہ در قرنِ ثالث ۔ (مجموعۃ الفتاوی علی ہامش الخلاصۃ الفتاوی :۴/۳۴۴، کتاب الکراہیۃ ، باب ما یحل استعمالہ وما لا یحل) (۲) والأصل فیہ أن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو قراء ۃ قرآن أو ذکرا أو طوافاً أو حجاً أو عمرۃ أو غیر ذلک عند أصحابنا بالکتاب والسنۃ ۔ أما الکتاب فلقولہ تعالی: {وقل رب ارحمہما کما ربیٰني صغیرا} ۔ (الإسراء :۲۴) وأما السنۃ فأحادیث کثیرۃ منہا ما في الصحیحین حین ضحی بالکبشین فجعل أحدہما عن أمتہ وہو مشہور تجوز الزیادۃ بہ علی الکتاب ، ومنہا ما رواہ أبوداود : ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اقرؤوا علی موتاکم سورۃ یٰسٓ۔ (البحر الرائق : ۳/۱۰۵، کتاب الحج ، با ب الحج عن الغیر، مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت)