محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۱- … یہ کہ شوہر عورت کے مرض الموت میںمہر معاف کرائے ، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ معافی شرعاً معتبرنہیں ، کیوں کہ اب عورت کے جمیع مال میں بشمولِ مہر ورثاء کا حق وابسطہ ہو چکا ہے ۔ (۱) ۲- …یہ کہ عورت اپنی حیات میں بخوشی معاف کردے خواہ وہ شوہر کے مرتے وقت ہی کیوں نہ ہو، (۲) معافی کی یہ صورت شرعاً معتبر ہے۔مہر فاطمی کی مقدار موجودہ زمانہ میں مسئلہ(۲۵۴): مہرِ فاطمی چار سو اسّی ’’۴۸۰‘‘ درہم ہیں، جن کی مقدار ہمارے زمانے میں ایک کلو چار سوانہتر( ۴۶۹-۱)گرام ، سات سو ساٹھ(۷۶۰ )ملی گرام چاندی ہوتی ہے ، جو اس کی قیمت ہوگی وہی مہرِ فاطمی ہوگا ،اور ایضاح المسائل میں چار سو اسی درہم کی مقدارڈیڑھ کلو، تیس گرام، نو سو ملی گرام ذکر کی گئی ہے۔(۳) ------------------------------ (۱) ما فی ’’البحر الرائق‘‘: ولا بد في صحۃ حطہا من أن لا تکون مریضۃ مرض الموت۔ (۳/۲۶۵، کتاب النکاح، باب المہر، رد المحتار: ۴/۲۴۸، کتاب النکاح، باب المہر) (۲) ما فی ’’ الکتاب ‘‘ : لقولہ تعالی : {واٰتو النساء صدقٰتہن نحلۃ فإن طبن لکم عن شيء منہ نفساً فکلوہ ہینئاً مریئاً} ۔ (سورۃ النساء : ۴) ما فی ’’البحر الرائق‘‘: ولا بد في صحۃ حطہا عن الرضا حتی لو کانت مکروہۃ لم یصح۔ (۳/۲۶۴ ، کتاب النکاح ، باب المہر ، رد المحتار : ۴/۲۴۸، کتاب النکاح ، باب المہر، بدائع الصنائع : ۳/۵۱۹ ، کتاب النکاح ، باب المہر، مجمع البحرین وملتقی النیرین في الفقہ الحنفی : ص ۵۲۵) الحجۃ علی ما قلنا: (۳) ما فی ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘: عن عمر بن الخطاب : ’’ ما علمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکح شیئاً من نسائہ ولا أنکح شیئاً من بناتہ علی أکثر من اثنتي عشرۃ أوقیۃ ‘‘ =