محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اب ذرا اور آگے چلیں اور غور کریں تو کسان ، لوہار ، بڑھئی سب کو کپڑے کی ضرورت ہے جو ان کے بدن کو ڈھانپ سکے ، لہذا اب یہ سب کے سب جولاہا اور نساج کے محتا ج ہیں ، غرضیکہ ہر ایک انسان دوسرے کا محتاج ہے۔ {سنۃ اللہ في خلقہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً }۔اور لوگوں کی ضرورتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونا یہی بیع وشراء کے مشروع ہونے کا اصل سبب ہے، جیساکہ فقہ کا قاعدہ ہے:’’حاجۃ الناس أصل في شرع العقود ‘‘۔(لوگوں کی حاجت معاملات کے جواز کی بنیادہے)۔(المبسوط للسرخسی:۱۵/۷۵)بیع وشراء کی اہمیت وفضیلت: جب اللہ تعالی نے خود قرآن حکیم میں بیع کو حلال قراردیا ہے تو یہیں سے اس کی اہمیت وفضیلت آشکارہ ہوجاتی ہے۔ بیع کے فوائدواثرات ظاہروباہر ، اس کے انوارات روشن وعیاں اور اس کے منافع کثیر ہیں ۔ بیع کے مقابل’’ ربا‘‘ یعنی ’’سود‘‘ ہے ، کہ جس میں بندوں کا خسارۂ عظیم ہے ، اس لیے اس کو حرام قراردیا ، کیوں کہ اس میں ناحق اور ظلماً مالِ غیر کو کھانا لازم آتا ہے ، چنانچہ مقروض شخص جب دین کی ادائیگی نہیں کرپاتاتو قرض پر سود بڑھتا چلا جاتا ہے ، بسا اوقات شرحِ سود اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ مقروض اپنا پورا سامان، جائداد وغیرہ بیچ کر بھی ادا نہیں کرپاتا ، چنانچہ مرابی یعنی سود خور اس کو ہڑپ کرجاتا ہے اور سود کا نقصان تو ظاہر وباہر ہے اور دن بدن اس کا مشاہدہ ہمارے سامنے ہے کہ مالدار سود دینے والے مالدار تر بنتے جاتے ہیں اور غریب ، غریب تر ہوتے جاتے ہیں ، حتی کہ ہلاکت کی نوبت آجاتی ہے۔