محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ بیع وشراء اور تجارت کے پیشہ سے منسلک تھے ، مگر آپ نے منع نہیں فرمایا ، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی کام انجام دیا جائے اور آپ منع نہ فرمائیں یہ اس کام کے شرعاً جائز ہونے کی دلیل ہے)۔ اجماع:… تمام مسلمانوں کا سلفاً وخلفاً بیع کے جواز پر اجماع ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اب تک لوگ خریدوفروخت اور تجارت میں مشغول ہیں کسی نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر امت کا اجماع ہے۔ قیاس:… قیاس وعقل بھی اس کی متقاضی ہیں کہ بیع وشراء مشروع ہو، کیوں کہ ہر انسان اپنی ہر حاجت کو خود پورا نہیں کرسکتا ، بلکہ وہ روٹی ، کپڑا اور مکان وغیرہ بہت سی حاجاتِ ضروریہ کا محتاج ہے، اب وہ تنِ تنہا ان تمام حوائج کو پورا نہیں کرسکتا ، بلکہ اگر کھیتی بوئے تو کاٹنے کے لیے دوسرے کا محتاج، آٹا پیسے تو گوندھنے کے لیے دوسرے کا محتاج، کپڑا پہننا ہے تو نساج اور جولاہا کا محتاج ، آلاتِ حرفت وصنعت وغیرہ کا کام کرنا ہے تو انجینئر او رپلمبر کا محتاج۔بیع وشراء کی حکمتِ مشروعیت: اسی سے بیع وشراء اور تجارت کی مشروعیت کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ جب انسان بہت سی اشیاء کے حصول میں دوسروں کا محتاج ہے تو اب ان کے حصول کے لیے اس کو ان کا عوض ادا کرنا پڑے گا، کیوں کہ اگر بلاعوض یہ سب اشیاء ضروریہ حاصل کرتا ہے تو غصب یا چوری ہوگی اور اس صورت میں فسادِ عظیم برپا ہونے کاخطرہ ہے، اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے ۔{إن اللہ لا یحب المفسدین}۔