محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دورِ حاضر میں وکالت کا پیشہ اختیار کرنا مسئلہ(۳۶۸): دورِ حاضر میں وکالت کا پیشہ چونکہ جھوٹ،فریب اور چربِ لسانی کا ذریعہ ہوتا ہے، اور حق وباطل میں کوئی لحاظ باقی نہیں رہتا، لہذا وکالت کا پیشہ ترک کرکے اور کوئی حلال روزی تلاش کرنا چاہیے ، ہاں اگر اس بات کا التزام ہو کہ جو حق پر ہوگا اسی کی وکالت کرے گا، اورخود کو اس پر پورا اطمینان بھی ہو، تو پھر پیشۂ وکالت جائز ہے ۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : لقولہ تعالی : {یا أیہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقي من الربوا إن کنتم مؤمنین، فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ}۔ (البقرۃ:۲۷۸؍۲۷۹) ما في ’’ السنن لإبن ماجۃ ‘‘ :عن عبد اللہ بن مسعود أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ لعن آکل الربوا ومؤکلہ وشاہدیہ وکاتبہ ‘‘ ۔ (۱/۱۶۵ ، باب التغلیظ في الربا ، السنن لأبي داود : ۲/۴۷۳ ، کتاب البیوع ، باب آکل الربا وموکلہ) (آپ کے مسائل اور ان کا حل:۶/۲۵۸) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ الکتاب ‘‘ : قال تعالی :{ وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ [سورۃ المائدۃ :۲]… وقولہ تعالی :{ واتقوا یوماً ترجعون فیہ إلی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون}۔[البقرۃ:۱۸۱] … وقولہ تعالی :{ ہٰأنتم ھؤلاء جادلتم عنہم في الحیوۃ الدنیا ، فمن یجادل اللہ عنہم یوم القیامۃ أم من یکون علیہم وکیلا} ۔ (النساء : ۱۰۹) ما فی ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : والدلیل علی جواز التوکیل بالخصومۃ ہو حاجۃ الناس، إذ لیس کل أحد یہتدي إلی وجوہ الخصومات، وقد صح أن علیاً وکل عقیلاً عند أبي بکر رضي اللہ عنہم ، وبعدما أسن وکل عبد اللہ بن جعفر عند عثمان رضي اللہ عنہما، وقال: إن للخصومۃ قُحَماً وإن الشیطان لیحضرہا وإني لأکرہ أن أحضرہا ۔ (۵/۴۰۷۲)=