محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
لے سکتاہے، جانبین اس پر اتفاق کرتے ہیں ، اس لئے اس میں بظاہر کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی،نیز فقہاء معاصرین کا میلان بھی اسی جانب ہے۔(۱)اجیر درمیان میں آرام کرسکتا ہے یا نہیں؟ مسئلہ(۳۵۰): راحت اور آرام بھی انسان کا حق ہے، طویل وقت متواتر کام کرنے سے آدمی تھک کر نڈھا ل ہوجاتا ہے، شریعت نے اس کا بھی خیال رکھا ہے، حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ إن لنفسک حقاً، ولأھلک حقاً ‘‘بے شک تمہارے نفس اور تمہارے اہل کا بھی حق ہے ،لہذا جانبین (اجیر ومستاجر) اس کے لئے وقت مقرر کردیں،تاکہ بعد میں کوئی شکایت نہ ہو ، ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: قال ابن عابدین : وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعاً أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ ومثلہ عفو في العادۃ والشرع اھـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوماً بلا عذر شرعي، لا یسقط معلومہ، وقد ذکر في الأشباہ والنظائر في قاعدۃ: العادۃ محکمۃ عبارۃ القنیۃ ھذہ ، وحملہا علی أنہ یسامح أسبوعاً في کل شہر، واعترضہ بعض محشیہ بأن قولہ في کل شہر لیس في عبارۃ القنیۃ ما یدل علیہ قلت: والأظہر ما في آخر شرح منیۃ المصلي للحلبي أن الظاہر أن المراد في کل سنۃ ۔ (۶/۶۳۰، کتاب الوقف، مطلب فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ) (اسلام کا قانون اجارہ:۱۵۵) ما فی ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي ‘‘ : بقاعدۃ فقہیۃ : ’’ العادۃ محکمۃ ‘‘ ۔ (ص : ۷۹ ، القاعدۃ السادسۃ) (احسن الفتاوی :۷/۲۸۴،کتاب الاجارۃ)