محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شادی میں بارات کی رسم مسئلہ(۲۴۷) : شادی میں بارات کی رسم ایسی بری رسم ہے، جو بہت سارے خرافات کو شامل ہے ، اور سنت و شریعت کے بالکل خلاف ہے ، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ بارات کو بھی شادی کا بہت بڑا رکن سمجھا جاتا ہے ، اس کیلئے دولہا اور کبھی دلہن والے بڑے اصرار وتکرار کرتے ہیں ، اصل غرض اس سے محض ناموری وتفاخر ہے، اور ریاکاری وتفاخر کیلئے کوئی بھی عمل کرنا حرام ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’الکتاب‘‘: لقولہ تعالی:{یآیہا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والأذی، کالذي ینفق مالہ ریآء الناس ولا یؤمن باللہ والیوم الآخر} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۶۳) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن شداد بن أوس قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ’’ من صلی یرائي فقد أشرک ومن صام یرائي فقد أشرک ومن تصدق یرائي فقد أشرک ‘‘ ۔ رواہ أحمد ۔ (مشکوۃ المصابیح:ص۴۵۵) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن محمود بن لبید أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’ إن أخوف ما أخاف علیکم الشرک الأصغر، قالوا : یا رسول اللہ ! وما الشرک الأصغر؟ قال: الریاء ‘‘۔ رواہ أحمد ، وزاد البیہقي في شعب الإیمان: یقول اللہ لہم یوم یجازی العباد بأعمالہم : ’’ اذہبوا إلی الذین کنتم تراؤون في الدنیا فانظروا ہل تجدون عندہم جزاء وخیراً ‘‘ ۔ (مشکوۃ المصابیح : ص ۴۵۶)