محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دلالی کی اجرت متعین کرنا مسئلہ(۳۵۸): دلالی (Commision Agent)کی صورت یہ ہوتی ہے، کہ بائع دلال سے کہے کہ تو جو سامان بیچے گا، اس کی قیمت کا دوفیصد یا ایک فیصد تجھے ملے گا، اس طرح کی دلالی، اجرت متعین کرکے کیجاوے تو مفتی بہ قول کے مطابق جائز ہوگی۔ (۱) ------------------------------ =ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘: قال في التاتارخانیۃ : وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر فذاک حرام علیہم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان في الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام ۔ (۹/۸۷ ، کتاب الإجارۃ ، مطلب في أجرۃ الدلال ، کذا في خلاصۃ الفتاوی : ۳/۱۱۶ ، وکذا فی الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۵۰) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘: قال: ونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النجش وہو أن یزید في الثمن ولا یرید الشراء لیرغب غیرہ ۔ (۴/۶۶ ، باب بیع الفاسد ، فصل فیما یکرہ) (اسلامی قانون اجارہ:۱۱۰) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی’’ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ : قال ابن عباس : لا بأس أن یقول : بع ہذا الثوب فما زاد علی کذا وکذا فہو لک ، علقہ البخاري ، ووصلہ ابن أبي شیبۃ عن ہشیم عن عمرو بن دینار عن ابن عباس نحوہ وہذا سند صحیح ۔ (۱۱/۴۰۳) ما فی ’’ اعلاء السنن‘‘ : وشرط جوازہا عند الجمہور أن تکون الأجرۃ معلومۃ ، قلت: والحاصل أن أجرۃ السمسار ضربان: إجارۃ وجعالۃ، فالأول یکون مدۃ معلومۃ یجتہد فیہا للبیع ، وہذا جائز بلا خلاف، فإن باع قبل ذلک أخذ بحسابہ، وإن انقضی الأجل أخذ کامل الأجرۃ ۔ (۱۶/ ۲۴۴؍۲۴۵) =