محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مسائلِ اجارہ اجارہ کی شرائط مسئلہ(۳۲۱): انعقادِ اجارہ کیلئے عاقدین یعنی اجیر اور مستاجر کا عاقل اور سمجھدار ہونا ضروری ہے، اسی وجہ سے اجارہ ،مجنون اور صبی ٔ غیر ممیز کی طرف سے منعقد نہیں ہوتا ، اور اگر بچہ عاقل اور سمجھدار ہے، اور اس کو اولیاء کی طرف سے لین دین کی اجازت ہے ، تو اس صورت میں اگر صبیٔ ممیز اپنے مال کو اجارہ کے طور پردے، تو اس کا یہ عقدِ اجارہ منعقد ہوگا، اور اگر اولیاء کی طر ف سے اجازت نہ ہو اور صبیٔ ممیز نے کسی سے عقدِ اجارہ کر لیا ،تو یہ عقد ِ اجارہ اولیاء کی اجازت پر موقوف ہوگا ، اگر اولیاء اس عقد کی اجازت دیدیں تو نافذ ہوگا ورنہ نہیں ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘: قال العلامۃ الکاساني : أما الذي یرجع إلی العاقد فالعقل، وہو أن یکون العاقد عاقلاً حتی لا تنعقد الإجارۃ من المجنون والصبي الذي لا یعقل؛ کما لاینعقد البیع منہما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتی إن الصبي العاقل لو أجر مالہ أو نفسہ ، فإن کان مأذوناً ینفذ، وإن کان محجوراً یقف علی إجازۃ الولي عندنا ؛ خلافاً للشافعي ، وہي من مسائل المأذون ۔ (۵/۵۲۴ ، کتاب الإجارۃ ، فصل في شرائط الرکن ، کذا في الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۱۰ ، کتاب الإجارۃ ، وأما شرائطہا) ما في ’’درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ :یشترط في انعقاد الإجارۃ أہلیۃ العاقدین یعني کونہما عاقلین ممیزین ۔ (۱/۴۹۶، المادۃ : ۴۴۴) وأیضاً: تبطل الإجارۃ إن لم یوجد أحد شروطہا مثلاً: إیجار المجنون والصبي غیر الممیز، کاستأجارہما باطلٌ، ولا ینقلب صحیحاً بإجازۃ أولیائہما، ولا یکون نافذاً۔ (۱/۵۱۱ ، الفصل الرابع في فساد الإجارۃ وبطلانہا، المادۃ: ۴۵۸،کذا في الفقہ الإسلامي وأدلتہ: ۴/۳۰۷۷، المبحث الثالث شروط العقد) (اسلامی قانون اجارہ:۳۷)