محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
حالتِ حمل میں روزہ افطار کرنا مسئلہ(۱۴۰): حالتِ حمل میں اگر کمزوری یا ہلاکت کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ،اسی طرح دودھ پلانے والی اگر بچہ کے کمزور یا ہلاک ہونے کے اندیشہ سے روزہ نہ رکھے تو اس کے لیے شرعاً افطار جائز ہے، مگر رفعِ عذر کے بعد قضا لازم ہوگی ۔ (۱)قے سے روزہ فاسد ہوگا یا نہیں؟ مسئلہ(۱۴۱): اگر قے از خود آجائے تو روزہ فاسد نہ ہوگا، گو منہ بھر کر ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ قے کا خود بخود آجانا روزہ کو نہیں توڑ تا ہے، البتہ اگر چنے کی مقدار یا اس سے زائد قے کوقصد وارادہ کے ساتھ لوٹالیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، بلاقصد قے کے لوٹ جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، خواہ منہ بھر کر ہی ہو۔ (۲) ------------------------------ =۔۔۔۔۔۔۔۔ عملاً بالأصل فیہما ، أي في الأول والثاني فإن الأصل في الأول بقاء اللیل فلا تجب الکفارۃ ، وفي الثاني بقاء النہار فتجب علی إحدی الروایتین کما علمت ۔ (۳/۳۴۰، کتاب الصوم ، قبیل مطلب في جواز الإفطار) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ والخلاصۃ ‘‘ : الحامل والمرضع إذا خافتا علی أنفسہما أو ولدہما أفطرتا وقضتا ولا کفارۃ علیہما ۔ (الفتاوی الہندیۃ :۱/ ۱۰۷، الباب الخامس في الأعذارالتي تبیح الإفطار، خلاصۃ الفتاوی : ۱/۲۶۵، الفصل الخامس في الحظر والإباحۃ ، تنویر الأبصار مع الدر علی الرد :۳/۴۰۳ ، فصل في العوارض المبیحۃ لعدم الصوم ، فتاوی رحیمیہ :۷/۲۷۰) الحجۃ علی ما قلنا: (۲) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : قال العلامۃ الحصکفيؒ: (وإن ذرعہ القيء وخرج) ولم یعد (لا یفطر مطلقاً) ملأ أو لا (فإن عاد) بلا صنعہ (و) لو (ہو ملء الفم مع تذکرہ =