محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
زکوۃاورٹیکس میں فرق: واضح رہے کہ ہمارے زمانہ میں ایک طبقہ ایساپیدا ہوچکا ہے جو یہ کہتاہے کہ زکوٰۃ کا جو نصاب اور شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی وہ ان کے اپنے دور کے مطابق تھی ،آج اسلامی حکومت جوبھی ٹیکس اس دور کے تقاضوں کے مطابق وصول کرتی ہے وہی زکوٰۃ ہے، گویا کہ انہوںنے زکوٰۃ اور ٹیکس کو ایک ہی قرار دیا ،ان حضرات نے اسلام کے ایک نہایت اہم اور بنیادی رکن کو مشکوک بنانے کی ناکارہ کوشش کی ہے، حالانکہ زکوٰۃ اور ٹیکس کے ما بین واضح فرق ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ موسوعۃ الفقہ الإسلامي المعاصر‘‘ : لقد حاول بعضہم الخلط بین الزکاۃ والضرائب مع أنہ لا علاقۃ بینہما، فالزکاۃ ہي حق اللہ في أموال الناس ولا توجہ إلا للخیر ، أما الضرائب فہي حق الدولۃ التي قد توجہہا للمصلحۃ أو لغیر المصلحۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وثمۃ فروق کثیرۃ بین الزکاۃ والضرائب : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الزکاۃ عبادۃ مالیۃ فرضہا اللہ وجعلہا حقا في مال الأغنیاء ، وجعل رکناً من أرکان الإسلام، أما الضرائب فہي من وضع الحاکم عند الحاجۃ إلیہا وہي مختلفۃ عن الزکاۃ في المقدار والہدف والباعث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أما مقدار الزکاۃ فہو محدد بنص الشرع یزید ولا ینقص۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أماالضرائب فقد ترتفع وقد تنخفض وقد تلغی أصلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہدف الضرائب معاونۃ الحکومۃ في إقامۃ المصالح العامۃ للدولۃ کإنشاء دور التعلیم والمستشفیات وتعبید الطرق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أما الزکاۃ فلا تصرف إلا للأصناف الثمانیۃ الواردۃ في آیۃ {إنما الصدقات} ۔ [التوبۃ :۶۰ ] والباعث علی إخراج الزکاۃ ہو الإیمان باللہ وامتثال أوامرہ ، والنجاۃ من حساب الآخرۃ ، وإقامۃ رکن من أرکان الإسلام ، أما الباعث علی إخراج الضرائب فامتثال أمر الدولۃ؛ فالضرائب تؤخذ من جمیع الممولین علی السواء سواء أکانوا مسلمین أم غیر مسلمین =