محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیعِ استصناع مسئلہ(۲۸۱): بیعِ استصناع یہ بھی بیعِ سلم ہی کی طرح کی ایک بیع ہوتی ہے، یعنی کسی چیز کو بنانے کیلئے معاملہ کرکے آرڈر دینا، مگر اس میں صرف اتنا فرق ہوتاہے کہ ثمن اور مبیع دونوں ادھار ہوتے ہیں ، یعنی پیشگی رقم بعض یا کل ادا کرنے کی شرط نہیں ہوتی ، اس کے جائز ہونے کیلئے بھی مذکورہ بالا تمام شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔(۱)بیع الوفا کے جواز کی ایک صورت مسئلہ(۲۸۲): اگر کسی شخص کو قرض کی سخت ضرورت ہے، اس کے پاس مکان یا دوکان یا زمین موجود ہو، اور وہ اس کو رہن میں رکھ کر قرض کا روپیہ حاصل کرنا چاہتا ہے ، مگر رہن رکھنے کی صورت میں مرتہن اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ، اس لیے کوئی شخص رہن رکھ کر بھی قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے ، اورصاحبِ ضرورت اپنی اس ضروری جائداد کو پوری طور سے فروخت کرنا بھی نہیں چاہتا ، تو متاخرین فقہاء نے دفعِ ضرورتِ راہن اور جوازِ انتفاعِ مرتہن کے لیے ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ فتح القدیر والفتاوی الہندیۃ ‘‘: الاستصناع طلب الصنعۃ وہو أن یقول لصانع خف أو مکعب أو أواني الصفر: اصنع لي خفاً طولہ کذا وسعتہ کذا، أو دستاً أي برمۃ تسع کذا ووزنہا کذا علی ہیئۃ کذا بکذا ویعطی الثمن المسمی أولا یعطی شیئاً فیعقد الآخر معہ جاز استحساناً تبعاً للعین ۔ (۷/۱۰۷ ، الفتاوی الہندیۃ : ۳/۲۰۷) (ایضاح النوادر:۲۸)