محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی وغیرہ نے اس کے جائز قرار دینے کو اولیٰ اور مناسب سمجھا ہے ۔(۱)بیعِ مناقصہ (Tender)کا شرعی حکم مسئلہ(۲۸۳): مناقصہ یہ مزایدہ کی ضد ہے ، مزایدہ بائع کی جانب سے ہوتا ہے اور مشتری بولیاں لگاتے ہیں ، جو بھی زیادہ بولی لگادے اس کے حق میں بیع منعقد ہوجاتی ہے،اور مناقصہ میں مشتری کی طرف سے طلب ہوتی ہے،آج کل حکومت کی طرف سے ٹینڈرنوٹس آتے رہتے ہیں ، مثلاً حکومت نے اعلان کیا کہ ہمیں کسی تعلیم گاہ میں استعمال کرنے کے لئے ہزاروں کرسیوں کی ضرورت ہے، لہذا ہمیں ٹینڈر دیں کہ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وصورتہ: أن یقول البائع للمشتري بعت منک ہذا العین بدین لک عليّ علی أنی متی قضیت الدین فہو لي أو یقول البائع بعتک ہذا بکذا علی أني متی دفعت لک الثمن تدفع العین إلی ۔ (۶/۱۱ ، کتاب البیع ، باب خیارالشرط ، تبیین الحقائق : ۶/۲۳۷ ، کتاب الإکراہ ، رد المحتار : ۷/۵۴۵ ، مطلب في بیع الوفاء) ما في ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: والقول السادس في بیع الوفاء: إنہ صحیح لحاجۃ الناس فراراً من الربا ، وقالوا : ما ضاق علی الناس أمر إلا اتسع حکمہ ۔ ’’درمختار‘‘۔ (رد المحتار علی الدر : ۷/۵۵۱ ، کتاب البیوع ، باب الصرف ، مطلب : قاضیخان من أہل التصحیح والترجیح) ما فی ’’ الأشباہ والنظائر‘‘ : بقاعدۃ فقہیۃ : ’’ الأمر إذا ضاق اتسع وإذا اتسع ضاق ‘‘ ۔ (۱/۳۰۴) (کتاب الفتاوی:۵/۲۷۹)