محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
علماء کرام کے معیشت میں حصہ نہ لینے کی وجہ : علماء کرام دین کے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے کسی دنیاوی کاروبار میں پوری طرح میدانِ معیشت میں مشغول نہیں ہوسکتے ،کیوں کہ اس اشتغال سے امورِ دینیہ متاثر ہوںگے ، جب کہ دین حوائجِ اصلیہ میں مقدم ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے : …{للفقراء الذین أحصروا في سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً في الأرض، یحسبہم الجاہل أغنیاء من التعفف ، تعرفہم بسیماہم ، لا یسئلون الناس إلحافاً}… (اصل) حق ان حاجت مندوں کے لیے جو اللہ کی راہ میںگھِر گئے ہیں ، ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے ، ناواقف انہیں غنی خیال کرتا ہے ، ان کی احتیاطِ سوال کے باعث تو انہیں ان کے بشرہ ہی سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔(البقرۃ:۲۷۳)قرآن میں مال ودولت کے لیے کلمہ خیر اور قباحت کا استعمال: قرآن کریم میں دنیا اورمال ودولت کے لیے بعض جگہ ایسے لفظ استعمال کیے گئے ہیں جو ان کی قباحت اور شناعت پر استدلال کرتے ہیں ، مثلاً {إنما أموالکم وأولادکم فتنۃوما الحیٰوۃ الدنیا إلا متاع الغرور}اور ان کے لیے تعریفی کلمات بھی ہیں، جیسے {وابتغوا من فضل اللہ}( اور ڈھونڈو فضل اللہ کا) یعنی تجارتی نفع، اس کو فضل اللہ سے تعبیر کیا جارہا ہے ، اور بعض جگہ مال کے لیے خیر کا لفظ استعمال کیا گیا ، جیسے {وإنہ لحب الخیر لشدید }( اور آدمی مال کی محبت پر بہت پکا ہے) ۔ ’’الخیر ‘‘یہاں مال کے معنی میں ہے ،تو ایک ظاہر بیں انسان کو بعض اوقات ان دونوں قسم کی تعبیرات میں تعارض وتضاد محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو کہہ رہے تھے ، کہ متاع الغرور یعنی دھوکہ کا سامان ہے ، اور ابھی کہہ رہے ہیںکہ فضل اللہ اور خیرہے۔