محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ہاؤس فائنانسنگ کا شرعی حکم مسئلہ(۳۰۶): بڑے بڑے ملکوں اور شہروں میں سودی کمپنیاں لوگوں کو مکان بنانے کے لئے جو قرض دیتی ہیں، اس کو ہاؤس فائنانسنگ کہا جاتاہے،چوں کہ یہ تمام معاملات میں سود کا پورا پورا دخل ہوتاہے، اس لئے شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ جائز نہیں، بلکہ حرام ہوگا۔(۱) ------------------------------ =ما فی ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: قال في الجواہر: رجل رہن داراً وأباح السکنی للمرتہن فوقع بسکناہ خلل وخرب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم نقل عن التہذیب أنہ یکرہ للمرتہن أن ینتفع بالرہن وإن أذن لہ الراہن ، قال المصنف : وعلیہ یحمل ماء عن محمد بن أسلم من أنہ لا یحل للمرتھن ذلک ولو بالإذن لأنہ رباً، قلت : تحلیلہ یفید أنہا تحریمۃ فتأملہ ۔ (۱۰/۱۴۸) (فتاوی حقانیہ:۶/۲۲۷، آپ کے مسائل اور ان کا حل:۶/۱۶۷) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما فی ’’ الکتاب ‘‘: لقولہ تعالی :{یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا الربوا أضعافاً مضاعفۃ}۔[آل عمران:۱۳۰] {یا أیہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقي من الربوا إن کنتم مؤمنین، فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ}۔ [سورۃ البقرۃ: ۲۷۸؍۲۷۹] {الذین یأکلون الربوا لا یقومون إلا کما یقوم الذي یتخبطہ الشیطان من المس}۔[سورۃ البقرۃ:۲۷۵] {یمحق اللہ الربوا ویربي الصدقات}۔[سورۃ البقرۃ:۲۷۶] ما فی ’’ الحدیث‘‘: عن جابر قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء ‘‘ ۔ (الصحیح لمسلم : ۲/۲۷، السنن لإبن ماجۃ :۱/۱۶۵، باب التغلیظ في الربا ، السنن لأبي داود : ۲/۴۷۳، کتاب البیوع ، صحیح البخاری :۱/۲۸۰،کتاب البیوع) ما فی ’’ الحدیث ‘‘ : عن علي مرفوعاً قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’ کل قرض جر نفعاً فہو رباً ‘‘ ۔ (تکملۃ فتح الملہم : ۱/۵۷۴، کتاب المساقات والمزارعۃ ، اعلاء السنن : ۱۴/۵۶۷ ، کتاب الحوالۃ ، باب کل قرض جر منفعۃ فہو رباً)=