محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نقد اور اُدھار میں کمی زیادتی مسئلہ(۲۶۵): اگربیع اس طرح کی جائے کہ ادھار ، مثلاً : ۱۰؍ روپئے میں ، اور نقد ۸؍ روپئے میںتو جائز ہے، مگر مدت اور قسطوں کو متعین کرلیا جائے ، اور مجلس ہی میں اُدھار یا نقد پر اتفاق کرلے، یہ کہنا کہ ایک مہینے پر دس روپئے میں، اور دو مہینے پر ۱۲؍ روپئے میں ،تویہ جائز نہیں ہے ، اسی طرح کوئی قسط چھوٹ جائے تو اضافہ جائز نہ ہوگا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ الحدیث‘‘ : عن أبي ہریرۃ قال : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعۃ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد فسر بعض أہل العلم قالوا : بیعتین في بیعۃ أن یقول : أبیعک ہذا الثوب بنقدٍ بعشرۃ وبنسیئۃ بعشرین ولا یفارقہ علیٰ أحد البیعتین فإذا فارقہ علیٰ أحدہما فلا بأس بہ إذا کانت العقدۃ علی أحد منہما ۔ (جامع الترمذی : ۱/۲۳۳، أبواب البیوع ، باب ما جاء في النہی عن بیعتین في بیعۃ ، إعلاء السنن : ۱۴/۲۰۵) ما في ’’ الحدیث‘‘ : وعن سماک عن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ رضي اللہ تعالی عنہ قال: ’’ نہی النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن صفقتین في صفقۃٍ ‘‘۔ (إعلاء السنن : ۱۴/۲۰۶،کتاب البیوع، باب النہي عن بیعتین في بیعۃ) ما في ’’ المبسوط للسرخسي‘‘: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو (قال) : إلی شہر بکذا أو إلی شہرین بکذا فہو فاسد، لأنہ لم یعاطہ علی ثمنٍ معلوم ، ولنہي النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن شرطین في البیع ، وہذا ہو تفسیر الشرطین في بیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہوجائز، لأنہما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحۃ العقد ۔ (۱۳/۹ ، باب البیوع الفاسدۃ ، بیروت)=