محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انشورنس کی حقیقت ان بنیادوں پر قائم ہے مسئلہ(۳۱۳): ۱-…جو رقم بالاقساط ادا کی جاتی ہے وہ انشورنس کمپنی کے ذمہ قرض ہے اورا س پر جوزائد رقم ملتی ہے جس کو منافع سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ سود ہے ۔ (۱) ۲- …انشورنس کا کاروبار مشروط بالشرط ہوتا ہے اور قرضِ مشروط حرام ہے ۔ (۲) ------------------------------ = ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ‘‘: وإذا مات الرجل وکسبہ خبیث فالأولی لورثتہ أن یردوا المال إلی أربابہ، وإن لم یعرفوا أربابہ تصدقوا بہ ۔ (۵/۳۴۸، الباب الخامس في الکسب) (ایضاح النوادر:۱۵۲؍۱۵۳) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : رجل طلب من آخر قرضاً بعشرۃ دراہم والمقرض لا یرضی إلا بأکثر لا یجوز ، لأن فیہ الربا۔ (۳/۱۸۴، کتاب البیوع ، الفصل الثاني في الشرط التي تفسد البیع ، مکتبہ دارالایمان سہارنفور) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ :ولا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار وأن المخاطرۃ من القمار ، قال ابن عباس : إن المخاطرۃ قمار، وإن من أہل الجاہلیۃ کانوا یخاطرون علی المال والزوجۃ ، وقد کان ذلک مباحاً إلی أن ورد تحریمہ ۔ (۱/۳۹۸) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : والثاني : أنہ معلوم أن ربا الجاہلیۃ إنما کان قرضاً مؤجلاً بزیادۃ مشروطۃ ، فکانت الزیادۃ بدلاً من الأجل ، فأبطلہ اللہ تعالی وحرمہ وقال : {وإن تبتم فلکم رؤوس أموالکم}۔ وقال تعالی : {وذروا ما بقي من الربا}۔ حظر أن یؤخذ للأجل عوض ، فإذا کانت علیہ ألف درہم مؤجلۃ فوضع عنہ علی أن یعجلہ ، فإنما جعل الحط بحذاء الأجل ، فکان ہذا ہو معنی الربا الذي نص اللہ تعالی علی تحریمہ ۔ (۱/۵۶۶) (۲) ما في ’’ خلاصۃ الفتاوی ‘‘ : قال الإمام طاہر بن عبد الرشید البخاري رحمہ اللہ : وفي کفالۃ الأصل في الباب الأخیر ، القرض بالشرط حرام ، والشرط لیس بلازم یقرض علی أن یکسب في بلدہ کذا یوفي دینہ ۔ (۳/۵۳؍۵۴ ، کتاب البیوع ، الفصل الخامس)