محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کرایہ دار اول کا کرایہ دار ثانی کوپگڑی پر مکان دینا مسئلہ(۳۳۳): اگر کرایہ دار خو د پگڑی دیئے بغیر مکان حاصل کرے اور دوسرے کرایہ دار سے پگڑی لے کر کرایہ پر دینا چاہے یا مالکِ مکان کرایہ داری کا معاملہ ختم کرکے اپنی چیز کو واپس لینا چاہے اور کرایہ دار اس سے یعنی اصل مالک سے پگڑی کے نام پر رقم حاصل کرنا چاہے تو یہ ناجائز اور حرام ہے، جیسا کہ آج کل عام ہوچکا ہے، یاد رکھیں یہ رقم جو اصل مالک سے یا دوسرے کرایہ دار سے وصول کی جارہی ہے حرام ہے ،اس کا لینا کرایہ دار کیلئے بالکل جائز نہیں ہے ۔ (۱) البتہ ایک کرایہ دار دوسرے کرایہ دار سے رقم (پگڑی کے نام پر) اس وقت لے سکتا ہے جبکہ موجودہ کرایہ دار نے اس مکان یا دوکان میں کوئی تعمیری کام کرایا ہو ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : في القنیۃ : الرشوۃ یجب ردہا ولا تملک وفیہا دفع للقاضي أو لغیرہ سحتاً لإصلاح المہم فأصلح ثم ندم یرد ما دفع إلیہ ۔ (۸/۳۵، کتاب القضاء ، مطلب في الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ) (۲) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : فإن آجرہا بأکثر مما استأجرہا بہ تصدق بالفضل إلا أن یکون أصلح منہا بناء أو زاد فیہا شیئاً فحینئذٍ یطیب لہ الفضل ۔ (۱۵/۱۳۰، کتاب الإجارۃ ، باب إجارۃ الدور والبیوت ، مکتبۃ دارالمعرفۃ بیروت) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ورد المحتار‘‘ : ولو زاد في الدار زیادۃ کما لو وتد فیہا وتداً أو حفر فیہا بئراً أو طیناً أو أصلح أبوابہا أو شیئاً من حوائطہا طابت لہ الزیادۃ ۔ (۴/۴۲۵ ، کتاب الإجارۃ، الباب السابع في إجارۃ المستأجر، وکذا فی رد المحتار : ۹/۳۸، کتاب الإجارۃ ، باب ما یجوز من الإجارۃ وما یکون خلافاً فیہا) اگر موجودہ کرایہ دار نے اس مکان میں کوئی تعمیری کام نہ کرایا ہو تو دوسرے کرایہ دار سے پگڑی نہیں لے سکتا ، نیز موجودہ کرایہ دار مالکِ مکان سے پگڑی کی رقم کسی بھی صورت میں نہیں لے سکتا ہے ۔ (۱)