محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
باب الجمعۃ شہر اور دیہات میں جمعہ مسئلہ(۷۱): شہروں میں جمعہ صحیح ہے دیہاتوں میں نہیں(۱)، البتہ جن دیہاتوں میں پہلے سے نمازِ جمعہ ہوتی ہے وہاں بند نہ کیجائے، کیونکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے ۔ (۲)شہر کی تعریف : جمعہ کے مسئلہ میں شہر سے مراد ایسی بستی ہے جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہوں،تھانہ یا تحصیل اور ڈاکخانہ ہو، کوئی عالم یعنی مسائلِ ضروریہ بتانے والا اور کوئی معالج موجود ہو ۔ (۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ البدائع ‘‘ : وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات : المصر الجامع ، والسلطان ، والخطبۃ ، والجماعۃ ، والوقت۔(۲/۱۸۸) وما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي القنیۃ : صلوۃ العید في القری تکرہ تحریما۔ ’’درمختار‘‘۔ قولہ : (صلاۃ العید) ومثلہ الجمعۃ۔ (۳/۴۶ ، باب العیدین) (۲) ما في ’’رد المحتار مع الدر المختار‘‘:واستشہد لہ بما في التجنیس عن الحلواني: أن کسالی العوام إذا صلوا الفجر عند طلوع الشمس لا یمنعون، لأنہم إذا منعوا ترکوہا وأدائہا مع تجویز أہل الحدیث لہما أولی من ترکہا أصلاً۔ (۳/۵۲، باب العیدین) الحجۃ علی ما قلنا: (۳) ما في ’’ الدر المختار مع رد المحتار والبحر والبدائع ‘‘:(المصر وہو ما لا یسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا) وعلیہ فتوی أکثر الفقہاء ۔’’ درمختار‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ قال الشامي : عن أبي حنیفۃ أنہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک وأسواق ولہا رساتیق وفیہا وال یقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحشمتہ وعلمہ أو علم غیرہ یرجع الناس إلیہ فیما یقع من الحوادث۔(۳/۵،۶ ، باب الجمعۃ ، البحر الرائق : ۲/۲۴، بدائع الصنائع : ۲/۱۸۹) (کفایت المفتی : ۳/۲۴۹، فتاوی دار العلوم : ۵/۱۰۲، جدید فقہی مسائل:۱/۱۶۶، کتاب الفتاوی:۳/۳۶، فتاوی حقانیہ:۳/۳۸۱)