محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے فکس ڈپازٹ میں رقم جمع کروانا مسئلہ(۲۹۸): انکم ٹیکس کی بچت کی غرض سے فکس ڈپازٹ میں رقم جمع کروانا جائز ہوگا، لیکن نیت صرف جمع کروانے کی ہو نہ کہ سود حاصل کرنے کی،ہاں مگر جو سود ملے اسے چھوڑ نا نہیں چاہیے، بلکہ لے کر فقراء میں تقسیم کردے، یا انکم ٹیکس ، کسٹم ٹیکس وغیرہ میں بھی دے سکتا ہے ۔(۱) ------------------------------ = قوم بہا الموہوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخلاف ما کان اشتراہ بثمن فإنہ یرابح علی ثمنہ لا علی قیمتہ ۔ (۷/۳۴۹؍۳۵۰) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘: أما تفسیرہ فقد ذکرناہ في أول الکتاب وہو أنہ بیع بمثل الثمن الأول مع زیادۃ، وأما شرائطہ قیمتہا ما ذکرنا ، وہو أن یکون الثمن الأول معلوماً للمشتري الثاني لأن المرابحۃ بیع الثمن الأول مع زیادۃ ربح، والعلم بالثمن الأول شرط صحۃ البیاعات کلہا ۔ (۷/۱۷۳؍۱۷۴، قضایا الفقہ والفکر المعاصر للزحیلی : ص۲۵۶؍ ۲۵۷) (امداد الفتاوی :۳/۱۳۵،۱۳۶، ایضاح النوادر:۱۱۳) الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۳۰۱، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالاً حراماً، الفتاوی الہندیۃ : ۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس) ما فی ’’بذل المجہود شرح السنن لأبي داود‘‘: صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق فأما أن یکون کسبہ بعقدٍ فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستئجار علی المعاصي والطاعات، أو بغیر عقد، کالسرقۃ والغصب والخیانۃ والغلول، ففی جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد ولم یملکہ ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ =