محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
حکمتِ مشروعیتِ اجارہ:… اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی حاجات وضروریات کے پیش نظر عقدِ اجارہ کو مشروع فرمایا ہے ، کیوں کہ بسا اوقات انسان کے پاس نہ اپنا ذاتی گھر ہوتا ہے کہ جس میں وہ سکونت پذیر ہو، نہ زمین ہوتی ہے کہ جس میں وہ کھیتی کرے اور نہ ہی دیگر اشیاء ہوتی ہیں کہ ان سے انتفاع حاصل کرے ، تو اب اسے ضرورت ہے کسی دوسرے سے گھر، زمین یا کھیتی کرایہ پر لینے کی ،تاکہ سکونت ، زراعت یا خدمت حاصل کرے۔ اگر باوجود حاجتِ وضرورت کے عقدِ اجارہ کو مشروع نہ کیا جاتا تو پھر بندہ اپنی ضرورت کے دفع کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتا تھا اور یہ وضعِ شرع کے خلاف ہے ، جب کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ۔۔۔۔ {یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر}۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ بعثت بالحنیفیۃ السمحۃ ‘‘۔ (رواہ الخطیب البغدادی عن جابر)اجارہ کا حکمِ شرعی:… اللہ تعالی نے تجارت کو مباح قرار دیا ہے اورکمائی کا حلال اور پاکیزہ ذریعہ قرار دیا، اگر یہ آپس کی رضامندی اور خوشدلی سے ہو تو اللہ تعالی اس کی تجارت میں برکت نازل فرماتے ہیں ، جس بیع میں آپس کی رضامندی اور خوشدلی شامل نہ ہو وہ حرام ہے، اس لیے کہ ارشادِ خداوندی ہے :’’ اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر مت کھاؤ، لیکن کوئی تجارت ہو باہمی رضامندی سے تو مضائقہ نہیں ۔ (سورۃ النساء:۲۹)